کبھی سوچا نہیں تھا یہ
ہوس کی آگ میں جل کر
بنا سوچے بنا سمجھے ضمیر اپنا ٹکوں میں بیچ ڈالوں گا
کبھی سوچا نہیں تھا یہ
اجل کو بھول جاوں گا مری افلاس کی صورت مرے بچوں کی بیماری
مجھے مجبور کر دے گی کہ احکام خداوندی پس پردہ میں ڈالوں گا
کبھی سوچا نہیں تھا یہ
تخیل کی اڑاں پھر سے
مجھے اونچا اڑائے گی
نئی دنیا دکھائے گی نئے سپنے سجائے گی
مگر دو وقت کی روٹی خیال آئے گا جب دل میں
تو میرے نفس کا شیطاں مجھے اس آسماں سے یوں
اٹھا کر نیچے پھینکیگا کہ میری ناصبوری کا
یہی انجام ہونا تھا لڑائی دین و دنیا کی
مجھے بدنام ہونا تھا
تخیل کے سبھی بادل اچانک چھٹ سے جائیں گے
میں روزو شب میں گم ہو کر وہ سب کچھ بھول جاوں گا
وہی پھر زندگی ہوگی ہوس کی بندگی ہوگی
کبھی سوچا نہیں تھا یہ کبھی سوچا نہیں تھا یہ
( ماجد جہانگیر مرزا)