ایف پی سی سی آئی کی ٹیکس قوانین میں مشاورت نہ کرنے کی مذمت

کراچی(کامرس رپورٹر)  ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے نئے آرڈیننس کو حکومت کے خلاف سازش قرار دیا ہے اور ٹیکس کے اقدامات کا اعلان کرنے سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے وزیر خزانہ کے ویژن سے متصادم قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا کہ اس میں شدید ناانصافی کی وجہ سے امن وامان کے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔میاں ناصر حیات مگوں نے انسانی حقوق کی پا مالی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کو وسیع اختیارات دے کر آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کے موبائل فون، بجلی اور گیس کنکشن منقطع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ آرڈیننس نیب کو اختیار دیتا ہے کہ وہ نادرا کے ذریعے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی کے ذریعے 20 سال پرانے انکم ٹیکس کیسز کھول سکے۔ نئی ترمیم کو ''ٹیکس قوانین (تیسری ترمیم) آرڈیننس 2021کا نا م دیا گیا ہے۔میاں ناصر حیات مگوں نے مزید کہا کہ یہ ایف پی سی سی آئی کی تجویز تھی کہ تجارتی اور صنعتی نان فائلرز کے کنکشن منقطع کیے جا ئیں؛ لیکن، یہ آرڈیننس ایگزیکٹو اور ایڈ جو ڈیکشن کے علیحدگی کے فئیر اور منصفانہ طریقہ کار کو مدنظر نہیں رکھتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرڈیننس مبہم طور پر انکم ٹیکس کم فائل کرنے والے فائلرز کا ذکر کرتا ہے اور انکم ٹیکس افسران کو غیر ضروری صوابدیدی اختیارات فراہم کرتا ہے۔لازمی آن لائن اور ڈیجیٹل ادائیگیوں سے درپیش چیلنجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ایف پی سی سی آئی کے سربراہ نے کہا کہ ہماری معیشت پوسٹ ڈیٹڈ چیک پر کی جانے والی فروخت پر چلتی ہے اور کریڈٹ عام طور پر 2 ماہ کے لیے ہوتا ہے اور کاروبار نئے آرڈیننس میں اس شرط کی تعمیل نہیں کر سکتے۔ایف پی سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ آرڈیننس میں بجٹ کے اقدامات شامل ہیں اور یہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر نہیں کیے جا سکتے اور 15 ستمبر 2021 سے آرڈیننس پہلے ہی نافذ ہو چکا ہے۔ ایف پی سی سی آئی اسے کاروبار مخالف اور غیر منصفانہ سمجھتا ہے۔سنیئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی، خواجہ شاہ زیب اکرم نے نشاندہی کی کہ ترمیم کے تحت ایف بی آر کو واضح زیادتی کی اجازت دی جا رہی ہے اور کہا کہ یہ ٹیکس نظام میں مزید بدعنوانی کے دروازے کھولے گا اور اس کے نتیجے میں کاروباری برادری کو ہراساں کرنے میں زبردست اضافہ ہوگا۔ ایف پی سی سی آئی کے سنیئر نا ئب صدر نے مزید کہا کہ باقی دنیا میں حکومتیں کوویڈ 19 سے ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لیے ایس ایم ایز کو ٹیکس میں وقفے اور مراعات دے رہی ہیں؛ جبکہ ، پاکستان میں حکومت کاروباری، صنعتی اور تجارتی برادری کا گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر اورسینیٹر حاجی غلام علی نے ان ترامیم اور مخالفین کے خلاف اس کے غلط استعمال کے امکانات پر اپنے صدمے کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیب اور ایف بی آر پہلے ہی کا روباری برادری کے لیے کافی خوفناک اور حوصلہ شکنی کا ماحول پیدا کر چکے ہیںاور مزید سخت قانون سازی سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 20 سال تک کے مردہ انکم ٹیکس کیسز کو دوبارہ کھولنے سے حکومت کی آمدنی میں کوئی اضا فہ نہیں ہو گا۔ایف پی سی سی آئی واضح طور پر اس آرڈیننس کو روکنے کا مطالبہ کرتا ہے؛  جب تک کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ نہ لے لیا جائے۔ ایف پی سی سی آئی ٹیکس سسٹم میں اصلاحات اور ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کے لیے بات چیت اور ڈائیلاگ کے لیے دستیاب ہے۔ ایف پی سی سی آئی اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ ٹیکس کے نظام کو صرف اس صورت میں مؤثر طریقے سے سدھارا جا سکتا ہے جب تمام ا سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لے لیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن