جہانگیر ترین، چودھری محمد سرور اور علیم خان کو یاد رکھیں!!!!!

عوامی اور سیاسی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ گذشتہ چند ماہ میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات کے بعد جہانگیر خان ترین، چودھری محمد سرور اور علیم خان کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ جہانگیر ترین پر پی ٹی آئی کے دور حکومت میں مقدمات قائم کیے گئے وہ عدالتوں کا سامنا کرتے رہے، جہانگیر ترین کے ساتھیوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا وہ عدالتوں میں پیشی کے موقع پر ان کے ساتھ ہوتے اور بہت سخت الفاظ میں ردعمل بھی دیتے رہے یاد رکھیے یہ مشکل وقت کے ساتھی تھے ایک طرح سے انہوں نے حکومت وقت کے فیصلوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے سیاسی ساتھی، سیاسی دوست اور کسی حد تک سیاسی رہنما کے ساتھ کھڑے رہے۔ ان دنوں جہانگیر ترین سیاسی تصاویر میں کم ہی نظر آتے ہیں لیکن یاد رکھیں ان کی سیاسی اننگز دوبارہ شروع ہونی ہے۔ جے کے ٹی کا کم بیک ہو گا، ان کی واپسی طے شدہ ہے۔ وہ ناصرف سیاسی کھیل میں دوبارہ نظر آئیں گے بلکہ بہت متحرک اور بہت بااثر، طاقتور سیاست دان کے روپ میں نظر آئیں گے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ملک میں "الیکٹیبلز" کی سیاست ختم ہو چکی ہے وہ غلطی پر ہیں۔ اس ملک کی سیاست میں الیکٹیبلز کا کردار ختم نہیں ہو سکتا ہاں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ لاہور، کراچی اور چند بڑے شہروں کے کچھ حلقوں سے روایتی اور ہمیشہ جیتنے والے سیاستدانوں کا کیرئیر خطرات سے دوچار ضرور ہو گا لیکن ملک کے اسی فیصد علاقے پر جہاں کے سیاستدان حکومتیں بنانے اور گرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں وہاں ان کی سیاست کا زور پہلے بھی تھا آج بھی ہے اور آئندہ بھی نظر آئے گا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انیس سو پچاسی سے دو ہزار بائیس یا تیئیس تک جو لوگ ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے ان کا وقت کردار مرحلہ وار ختم ہو رہا ہے۔ کچھ ایسے ہیں جن کا اب کوئی سیاسی مستقبل نہیں کچھ ایسے ہوں گے جو مستقبل قریب میں منظر نامے سے غائب ہو جائیں گے۔ 
یہ بات طے ہے کہ مستقبل کی سیاست میں جہانگیر ترین کے ساتھ ساتھ چودھری محمد سرور اور عبدالعلیم خان بھی بہت اہم کردار ادا کریں گے۔ مستقبل قریب میں ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب یہ تینوں شخصیات بڑے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گی۔ عبدالعلیم خان اور سابق گورنر چودھری محمد سرور کو پاکستان تحریکِ انصاف کے دور اقتدار میں دیوار سے لگانے کی بہت کوششیں ہوتی رہیں اور پی ٹی آئی کے ساتھ ان دونوں کے سیاسی سفر کا اختتام اچھا نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود ان کا سیاسی مستقبل روشن ہے اور یہ ماضی سے زیادہ طاقتور، متحرک اور بااثر سیاست دان کے طور پر ضرور نظر آئیں گے۔ ان کا اپنا کیریئر کیا ہوتا ہے اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہ دو ہزار سولہ، دو ہزار اٹھارہ کے دوران ہونے والی سیاست سے زیادہ تیزی کے ساتھ کام کریں گے۔ پاکستان میں سیاست کے دو رخ ہیں ایک رخ میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف ، مریم نواز اور عمران خان ہیں۔ دوسرے رخ میں آج صرف تین نام پیش کر رہا ہوں۔ گوکہ میرے علم میں وہ تمام نام ہیں جنہیں ان دنوں زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی لیکن آنے والے دنوں میں وہ نمایاں کردار اور فیصلہ سازی میں اہمیت حاصل کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ پس پردہ ان سب چیزوں پر کام ہو رہا ہے۔ نامی گرامی سیاست دانوں کے سیاسی کیریئر اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس حوالے سے ایسے حالات بن چکے ہیں کہ لوگ ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ گوکہ ایک عام پاکستانی ان حالات کو سمجھنے سے قاصر ہے لیکن یاد رکھیے حالات اسی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 
دو ہزار کی دہائی کے اوائل میں ایک ادارے نے شعور اور آگاہی کے نام پر ایک مہم شروع کی اور لوگوں کے ذہن بنانے میں اہم کردار ادا کیا وہ مہم اپنا اثر آج بھی دکھا رہی ہے اور یہ پاکستان کی بڑی بدقسمتی ہے کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ آج اپنے ذہن سے سوچنے کے بجائے ذہن سازی کے کاریگروں کا غلام بنا ہوا ہے۔ لوگ اپنی سوچ کے بجائے کسی کے قائم کردہ بیانیے کو زیادہ بہتر خیال کرتے ہوئے اس کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں۔ وہ ذہن سازی ہے کاریگر ہر تیس منٹ کے بعد ایک پیغام جاری کرتے تھے کہ فلاں کا یہ حق، فلاں کا یہ حق، فلاں کے ساتھ ناانصافی، فلاں کو دبا دیا، فلاں کو دیوار سے لگا دیا گیا، فلاں کا استحصال کر دیا گیا، فلاں کسی کا حق کھا گیا قارئین کرام آج بھی ایسے ہی کاریگروں کے عروج کا زمانہ ہے، یہ کھیل پھر سے عروج پر ہے غور کیجیے کون کیا کر رہا ہے۔
جہاں تک تعلق سیاسی کھلاڑیوں کا ہے اس سامنے رکھتے ہوئے بین الاقوامی کھلاڑیوں کے کردار پر بھی گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اتنی بڑی آفت ہے، سیلاب نے نظام زندگی کو معطل کر دیا ہے کہاں ہیں وہ ہمارے علاقائی دوست جن کے ساتھ ہم مضبوط تعلقات کے خواہں رہتے ہیں۔ چین پاکستان کی مدد کر رہا ہے لیکن دیگر ممالک اس مشکل گھڑی میں کہاں ہیں۔ میں امریکہ اور یورپ کا بہت بڑا حامی تو نہیں ہوں لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مشکل وقت میں کون پاکستان کا ساتھ دیتا ہے، کون ہے جو پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی کا اظہار کرتا ہے۔
جہانگیر ترین، چودھری محمد سرور اور عبدالعلیم خان یہ صرف کامیاب سیاست دان ہی نہیں بلکہ بہت بڑے سماجی کارکن بھی ہیں۔ مختلف اداروں کے ذریعے دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں، تعمیر کی صلاحیت رکھتے ہیں، ملک کی اصل طاقت زراعت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، کاروباری مراکز کو بڑھانے اور ملک میں رواداری کی سیاست کو عام کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ دور جدید کی ضروریات کو سمجھتے ہیں ملک کو مختلف شعبوں میں ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اپنے لوگوں کی صلاحیتوں میں اضافے اور بہترین دماغوں کو ملک کے لیے خدمات انجام دینے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ اس لیے یہ نام یاد رکھیں۔

ای پیپر دی نیشن