اسلام آباد (وقائع نگار) مریم نواز نے عمران خان کی جانب سے دھمکی آمیز کالز موصول ہونے سے متعلق بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ اگر کالز موصول ہوئی ہیں تو ثبوت سامنے لائیں اور دھمکانے والوں کے نام لیں، یہ ایکس وائی کیا ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں ہائی کورٹ میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ قدرت کا اصول ہے کہ سچ چاہے دیر سے ہی سہی لیکن سامنے ضرور آتا ہے، سچ ایک نہ ایک دن سامنے آتا ہے اور جھوٹ نے مٹنا ہوتا ہے، کیس کے فیصلے کے بعد میں اس پر بات کروں گی، وہ باتیں بھی کروں گی جو میں نے گزشہ 5 سال سے چلنے والے کیس کے دوران ابھی تک نہیں کیں۔ عمران خان کے خلاف درج مقدمے میں سے دہشت گردی کی دفعات نکالے جانے سے متعلق سوال پر مریم نواز نے کہا کہ ان پر جو بھی دفعہ لگے، چاہے وہ دہشت گردی کی ہو یا جج کو ڈرانے دھمکانے کی ہو، ان پر جو بھی دفعہ لگائی جائے، وہ ہر دفعہ میں مجرم ثابت ہوتے ہیں، وہ یہ پوری دنیا کے سامنے کرچکے ہیں، اس کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عمران خان ایک بدمعاش بنے ہوئے ہیں، انہوں نے یہ طریقہ اپنایا ہوا ہے کہ جہاں مشکل آئے، اس کو للکارو، ڈراؤ، اس کو دھمکاؤ اور اپنا راستہ صاف کرو، اس رویے کی عدالتوں کو حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، کیونکہ یہ رویہ ملک اور اس کے اداروں کے لیے اچھا نہیں ہے۔ چکوال میں عمران خان نے جو باتیں کیں ان کا تعلق وہاں ان کے جلسے کے سٹیج پر بیٹھے لوگوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے، میں عمران خان کو نان ایشو سمجھتی ہوں، اس لیے میں ان پر بات نہیں کرنا چاہتی، ہمیں اس کو نظر انداز کرکے پاکستان کے اہم اور حقیقی مسائل پر بات کرنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بہروپیے کی منافقت کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ان سے سوال کرتی کہ آپ کے اندر خود ان لوگوں کا نام لینے کی ہمت نہیں ہے، آپ خود کہتے ہیں کہ مسٹر ایکس اور مسٹر وائی، اگر خود آپ کے اندر ان کا نام لینے کی ہمت نہیں ہے، آپ کی ٹانگیں تھر تھر کانپتی ہیں تو آپ قوم کو کیا سبق دے رہے ہیں کہ ان کو للکارے، ان کو ڈرائے، ان کو دھمکائے۔ عمران خان نے خود کبھی اپنی پارٹی کو بتایا کہ وہ خود کس کس سے خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں اور کیا کیا باتیں کرتے ہیں، جب 2014 میں دھرنے کے دوران راحیل شریف نے بلایا تو ہنستے ہنستے نکل گئے، کیا انہوں نے بتایا کہ رات کے اندھیرے میں کس سے ملاقات کے لیے جارہا ہوں، عمران خان پارٹی سے بھی وہی بات کریں جس پر آپ خود عمل کرتے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ جلسوں میں کسی کو للکاریں اور رات کو اس کے پاؤں پڑ جائیں۔ مریم نواز نے کہا کہ خدا کی شان ہے کہ کل لوگوں کو کال کرانے والے کو آج کالز موصول ہو رہی ہیں، ہمیں دھمکی آمیز کالیں موصول ہوتی تھیں لیکن ہم نے اس کا سامنا کیا، ہمارا انقلاب 2 مہینے بعد فوت نہیں ہوگیا، لانگ مارچ سے متعلق سوال پر مریم نواز نے کہا کہ لانگ مارچ ہم نے بھی کیے ہیں، دیگر جماعتوں نے بھی کیے ہیں، میں جمہوریت کی حامی ہوں، جموری رائے کا احترام کرتی ہوں لیکن یہ بات جموری جماعت اور جمہوری رہنماؤں سے متعلق ہے، جو شخص یا جماعت جتھے لے کر آجائے اور کہے کہ وزیراعظم کو گردن سے پکڑ کر نکالو، پولیس والوں پر تشدد کی بات کرے، الیکشن کی تاریخ لینے کے لیے آنے کی بات کرے اور اسلام آباد کو نذر آتش کرے، میں اس کو جمہوری جماعت اور رویہ نہیں سمجھتی، آپ دھمکانے کے لیے لانگ مارچ نہیں کر سکتے۔ عمران خان غیر ملکی سازش کی بات کرتے تھے، آج انہی لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، آج تعلقات کی بحالی کے لیے ان کو پیسے دے رہے ہیں، جو انقلاب لے کر آرہے تھے تو انقلاب تو رانا ثناء اللہ کے ڈر سے نکلا ہی نہیں اور آج بات آرمی چیف کے تقرر پر آکر رک گئی ہے کہ اگر میری مرضی سے آرمی چیف لگاؤ گے تو ٹھیک ورنہ میں پورے ادارے کی تضحیک و تذلیل کروں گا، کیا یہ کوئی جمہوری رویہ ہے کہ اگر میری پسند کا بندہ نہیں آیا تو میں پورے ادارے کا چہرہ داغدار کردوں گا، مجھے نہیں معلوم کہ رانا شمیم نے اپنے بیان حلفی پر معافی کیوں مانگی لیکن صرف ایک گواہی کی بات نہیں ہے، ہماری بیگناہی کے لیے گواہیوں کے انبار لگے ہیں، کس کس کی گواہی سے نیب راہ فرار اختیار کرے گا۔ عمران جس کے لاڈلے ہیں وہ عمران خان کو اپنا لاڈلا نہیں سمجھتے بلکہ وہ اپنا کام نکالنا چاہتے ہیں۔ جاوید لطیف اور مریم اورنگزیب پر دہشت گردی کے مقدمے سے متعلق سوال پر مریم نواز نے کہا کہ ذرا غور کریں کہ عمران خان کس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، وہ مذہبی معاملات سے متعلق غیر سنجیدہ باتیں کرتے ہیں، کیا ان کو اندازہ ہے کہ وہ کس طرح کی باتیں کرتے ہیں یا ان کی ذہنی حالت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ مہنگائی سے عوام پریشان ہیں لیکن مہنگائی کی وجہ شہباز شریف کی حکومت نہیں بلکہ آئی ایم ایف کا معاہدہ اور عمران خان کی 4 سال کی کارکردگی اور نالائقی ہے، اس وجہ سے معاشی صورتحال خراب ہے، اس کے دور رس اثرات ہیں، معاشی صورتحال آہستہ آہستہ بہتر ہوگی اور اس کا ذمہ دار عمران خان ہے۔