نیویارک (انٹرنیشنل ڈیسک) ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ میں عالمی برادری سے اپیل کرتا ہوں کہ سیلاب سے شدید متاثر پاکستان کی اس نازک موقع پر مدد کی جائے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان اور بھارت کو 75 سال ہو چکے ہیں آزاد ہوئے، بدقسمتی ہے دونوں ممالک کے درمیان ابھی تک امن قائم نہ ہو سکا۔ ہماری دعائیں ہیں دونوں ممالک کے درمیان مستقل امن آئے اور اس کے اثرات زیرتسلط کشمیر میں بھی دیکھنے کو ملیں۔ شدید سیلاب کے بعد ہم نے انسانی ہمدردی کے طور پر اپنے برادر ملک کی مدد کی ہے اور مزید کوششیں جاری ہیں۔ افغانستان کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہے، گزشتہ 50 سال سے افغانستان حالت جنگ میں ہے اور تنازعات کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے، اس وقت برادر ملک میں غربت سمیت بہت سارے مسائل ہیں، دوست ملک کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہم افغانستان میں بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ عبوری حکومت مسائل سے نکلنے کے لیے کوشاں ہے۔ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں ہماری مشترکہ قسمت کو متاثر کرنے والے امتحانات کے خلاف مشترکہ ایجنڈے کے ذریعے کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ منصفانہ دنیا کے لئے اقوام متحدہ کی تنظیم نو کی ضرورت ہے۔ دنیا پانچ سے عظیم تر ہے اور زیادہ منصفانہ دنیا کے لیے ہم اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ترکیہ کو جو کچھ کرنے کی ضرورت ہے وہ کرتا رہے گا۔ واضح کردوں ہم دہشت گردی کے خلاف تمام ممکنہ اقدام اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یونان کے تارکین وطن پر ظلم و ستم میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے تصاویر دکھاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ہفتے 9 -ماہ کے شیر خوار بچے عاصم، 4 سالہ عبد الوحم اور اس کے اہل خانہ، یونانی کوسٹ گارڈ فورسز کی جانب سے کشتیاں ڈبوئے جانے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے۔ ایتھنز انتظامیہ کی اشتعال انگیزی اور پیدا کردہ کشیدگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے ترکیہ کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کرنے والے صدر اردگان نے شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کی دعوت دی۔ مشرق وسطی میں دو ریاستوں پر مشتمل حل کی حمایت کا اعادہ کرتے القدس میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر کو روکنے، فلسطینیوں کی زندگی اور املاک کی حفاظت کو یقینی بنانے اور آزاد فلسطین ریاست کا مطالبہ کیا جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو۔ انہوں نے آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین امن عمل کی حمایت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آذربائیجان کی مقبوضہ سرزمین کو آزاد کروانے سے مستقل امن کے قیام کے لیے ایک تاریخی کھڑکی کھل گئی ہے۔