رانا احتشام ربانی، علمی، سماجی اور رفاہی شخصیت 

رانا احتشام ربانی صاحب سے میرا تعارف 2010ءمیں جمہوری پبلی کیشنز کے آفس میں ہوا۔ اس ادارے سے انکی متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔ رانا احتشام ربانی نے ”امن اورانسانیت فاو¿نڈیشن“ کے نام سے تنظیم قائم کی جس کے وہ صدر ہیں اور مجھے انہوں نے سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا۔ یہ رجسٹرڈ تنظیم ہے۔ اس فاو¿نڈیشن کے تحت وہ کئی تقاریب کروا چکے ہیں۔ راناصاحب متعدد ممالک کا دورہ کر چکے ہیں جہاں انہوں نے "Peace" کے حوالے سے لیکچرز دئیے اور پاکستان کی نمائندگی کی۔ رانا احتشام ربانی مخلص اور ہمدرد انسان ہیں۔ ان کا تعلق سیاسی گھرانے سے ہے۔ انکے والد گرامی رانا غلام صابر خاں ایم ایل اے، ایم این اے رہے ہیں۔ انکے نزدیک سیاست عبادت ہے۔ انسان کی فلاح کو وہ سیاست سمجھتے ہیں کہ عوام کے مسائل حل ہوں۔ انکے دکھ، درد دور ہوں، انہیں روزگار اور انصاف ملے۔ صاف پانی ملے، علاج ہو۔ اپنی تحریروں کے ذریعے وہ دنیا بھر میں جانے مانے جاتے ہیں۔ پمفلٹ اورکتابوں کی شکل میں وہ شعور اور دانش کی باتیں عام کر رہے ہیں۔ سچائی کا شعور انسان میں ہو جائے تو یہ بڑی بات ہے۔ رانا صاحب چھوٹی سی بات میں بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ وہ انسانوں کے درمیان محبت کا پیغام دیتے ہیں۔رانا احتشام ربانی کی تحریریں چھوٹی چھوٹی لہریں ہیں جو پورے سمندر کی ارتعاش بن جاتی ہیں۔ وہ لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں سے اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ یہ اسلوب بڑے بڑے مکالموں سے زیادہ بامعنی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے کو تبدیل کرنے کا خواب دیکھنا ہی اسکی تعبیر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ رانا صاحب 14 جنوری 1950ءکو اوکاڑہ میں پیدا ہوئے۔ ایم سی ہائی سکول اوکاڑہ سے میٹرک کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے (پولیٹیکل سائنس) کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد حمایتِ اسلام لاءکالج لاہور سے ایل ایل بی کیا۔ 
رانا صاحب 1971ءمیں قومی ہاکی چمپیئن ٹیم کے ممبر رہ چکے ہیں۔ رانا صاحب اردو۔ انگریزی اور پنجابی تین زبانوںکے رائٹر ہیں۔ نثر کے علاوہ تین زبانوں میں انہوں نے آزاد نظمیں بھی کہیں۔ ان کی نظمیں زیادہ تر امن کے موضوع پر ہوتی ہیں۔ رانا صاحب مولانا رومی، حضرت داتا گنج بخشؒ اور پنجابی صوفی شاعروں سے متاثر ہیں۔ بلھے شاہ کی کافیاں اور ہیر وارث شاہ کا مطالعہ اکثر کرتے ہیں۔ قائداعظم کے بعد وہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت سے متاثر ہیں کہ ان دو حکمرانوں نے ملک کی بہتری کیلئے سوچا اور عمل کر کے دکھایا۔ رانا صاحب اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے نئی نسل کی ذہنی تربیت کر رہے ہیں۔ وہ اقتدار کے بجائے سسٹم کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اسی طرح انکی تحریریں بھی جذبے اور خلوص سے بھری ہوئی ہیں۔ وہ اپنی تحریروں اور گفتگو میں قانون کی پابندی، عمل داری اور انصاف کی فراہمی پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ وہ ہر انسان کو برابر سمجھتے ہیں۔ بھلے وہ صدر، وزیراعظم ہو یا عام انسان۔ رانا صاحب کی تحریروں کا مآخذ اور منبع قرآن مجید ہے۔ وہ روزانہ ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں اس دوران کوئی خیال ذہن میں آتا ہے تو وہ کاغذ پر لکھ لیتے ہیں۔ وہ امن اور محبت کے داعی اور پرچارک ہیں۔ وہ انسانوں کے درمیان محبت کا پیغام دیتے ہیں۔ انسان ایک گاو¿ں، محلہ، گلی، شہر، صوبے اور ملک میں اکٹھے رہتے ہیں۔ سب مل کر دفتروں، کاروبار، ملازمتوں اور کھیتوں میں کام کرتے ہیں، سب مل جل کر بازاروں، مارکیٹوں سے اشیاءضرورت کی خرید و فروخت کرتے ہیں تو پھر سب اپنے مسائل مل جل کر حل کرسکتے ہیں۔ اپنے دکھ مل کر بانٹ سکتے ہیں۔ اپنی خوشیاں مل جل کر منا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسائشوں، علم، تدبر اور دانائی سے نواز رکھا ہے۔ اسکے باوجود ان میں عجز و انکساری پائی جاتی ہے۔ میں جب بھی ان سے ملتا ہوں مجھے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے میں رانا صاحب سے بہت متاثر ہوں۔ متمول شخص ہونے کے باوجود مجھ جیسے فقیر سے بھی پیار کرتے ہیں۔ انکی مصاحبت میں بیٹھ کر مجھے علم سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ انہوں نے عوامی طور پر انسانی شعور میں آگہی کی تحریک شروع کی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کتابوں کے علاوہ زندگی کے مختلف موضوعات پر ہزاروں پمفلٹ تقسیم کیے اور کرتے رہتے ہیں۔
 پمفلٹ مختلف شہروں، ٹرینوں، بسوں اور ویگنوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ رانا احتشام ربانی صاحب نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کی۔ وہاں چین سے آئے ہوئے وفد کے ممبر نے رانا صاحب کی کتاب "Pathway to peace" وصول کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس کتاب کا چینی زبان میں ترجمہ کروائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رانا صاحب کیلئے بڑا اعزاز ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...