1857 ءکی جنگ آزادی کے عظیم ہیرو رائے احمد نواز خان کھرل نے 21ستمبر کو حالت سجدہ میں شہادت پائی۔ 1776ءکو جھامرہ میں رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہونےوالے کھرل قبیلے کے سردار رائے احمد نواز خاں نے 80سال کی عمر میں ''ساوی'' (رائے احمد خان کی گھوڑی کا نام) کی لگام تھامی اور انگریز سامراج پر ہلا بول دیا۔ راوی بار میں آباد سیال، فتیانہ، وہنی وال اور وٹو قبائل نے وطن کے اس عظیم بوڑھے سپوت کی قیادت میں عشق و وفا کی انمٹ داستانیں رقم کیں۔ جون کی ایک صبح گوگیرہ میں تعینات انگریز افسر برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا اور بغاوت سے نبٹنے کیلئے ان سے گھوڑے اور جوان مانگے۔ رائے احمد نواز خان کھرل نے برکلے کو جواب دیا کہ ”صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا‘۔تہی دست قبائل کا یہ 80 سالہ سردار جس وقت قومی غیرت کا نشاں بنے سامراج کے سامنے سینہ سپر کھڑا تھا۔ عین اسی وقت کچھ درگاہوں کے سجادہ نشین جاگیروں اور مال و زر کے عوض قومی غیرت و حمیت انگریز سامراج کے قدموں میں نچھاور کیے جا رہے تھے۔وکیل انجم اپنی کتاب ''سیاست کے فرعون'' میں رقم طراز ہیں کہ 10 جون 1857ءکو ملتان چھاﺅنی میں پلاٹون نمبر69کو بغاوت کے شبہ میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو مع دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا۔
آخر جون میں بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ اور پھر تھوڑا تھوڑا کرکے تہ تیغ کیا جائے گا۔ سپاہیوں نے بغاوت کر دی۔ تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔جب درگاہوں کے سجادہ نشینوں کی طرف سے مجاہدین آزادی پر زمین تنگ کر دی گئی، ایسے وقت میں راوی بار میں رائے احمد نواز خان کھرل کا وجود ان کیلئے سایہ عاطفت ثابت ہوا۔ جولائی کے پہلے ہفتے دریائے ستلج کے کنارے آباد وٹو قبیلے نے انگریز سرکار کو لگان ادا کرنے سے انکار کیا تو انگریز نے ان پر چڑھائی کر دی۔ انکے مال مویشی ہانک کر لے گئے اور بستیوں کو آگ لگا دی۔ اسی دوران میں گوگیرہ کے بہت سے خاندان قید کرلئے گئے۔ انگریز کے اس اقدام کی خبر جب رائے احمد خان کھرل کو پہنچی تو ان کا خون کھول اٹھا۔ اور انہوں نے جیل توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ گوگیرہ بنگلہ کی جیل میں کھرل سردار کے مجاہدین بھی قید تھے۔ چنانچہ 26 جولائی 1857ءکو رائے احمد خان کھرل نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جیل پر حملہ کر دیا اور قیدیوں کو چھڑا لیا۔ اس معرکہ میں رائے احمد خان کھرل خود بھی زخمی ہوا۔ گوگیرہ جو اس وقت ضلعی ہیڈ کوارٹر تھا۔ اس کی جیل توڑنے پر سامراج کے ہاں تھرتھلی مچ گئی۔ گوگیرہ کے برکلے، منٹگمری (ساہیوال) کے مارٹن اور ملتان کے میجر ہملٹن کی نیندیں اڑگئیں۔
احمد خان کے پے در پے حملوں کی وجہ سے منٹگمری کا علاقہ عملی طور پر رائے احمد خان کی عملداری میں آ گیا۔ رائے احمد خان کھرل نے 16 ستمبر کو کمالیہ کے تمام زمینداروں کو اکٹھا کیا اور انہیں جنگ آزادی میں شمولیت کی ترغیب دی۔اگرچہ رائے احمد خان کھرل کے بلاوے پر آنے والے زمیندار کھرل سردار کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے لیکن ان میں سے ہی سرفراز کھرل نامی ایک شخص میر جعفر و میر صادق کی تاریخ دہرانے کو بھی بے چین بیٹھا تھا۔رات نے جیسے ہی سیاہ چادر اوڑھی، کمالیہ کے سرفراز کھرل نے گھوڑی کا رخ برکلے کے بنگلے کی جانب پھیر دیا۔ رات کے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے تھے، جب سرفراز نے برکلے کو جگا کر رائے احمد خان کھرل کے اکٹھ کی روداد سنائی۔ صبح ہوتے ہی برکلے نے جھامرہ پر چڑھائی کر دی۔ لیکن رائے احمد خان کھرل ہاتھ نہ آیا، تو انگریز نے گاوں کے بچوں اور عورتوں کو لے جا کرگوگیرہ جیل میں بند کر دیا۔ یہ خبر مجاہدین تک پہنچی تو موجودہ اوکاڑہ سے خانیوال تک کا علاقہ میدان جنگ بن گیا۔
ایک طرف اگر راوی بار میں آباد قبائل قومی حمیت کا نشان بنے اپنے 80سالہ کھرل سردار کی قیادت میں سینہ سپر تھے۔ تو دوسری طرف سجادگان و مخدومین حقِ نمک ادا کرتے ہوئے انگریز سامراج کی فوج کے ہمراہ تھے۔ جن میں دربار سید یوسف گردیز کا سجادہ نشین سید مراد شاہ گردیزی، دربار بہاءالدین زکریا کا سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی، دربار فریدالدین گنج شکر کا گدی نشین مخدوم آف پاکپتن، مراد شاہ آف ڈولا بالا، سردار شاہ آف کھنڈا اور گلاب علی چشتی آف ٹبی لال بیگ کے علاوہ بھی کئی مخدوم وسجادہ نشین شامل تھے۔
21 ستمبر کے دن انگریز نے مخبری کی بنیاد پر گشکوری کے جنگل میں ’نورے دی ڈال‘ پر حملہ کیا۔ بار کے مجاہدین آزادی نے ایسی دادِ شجاعت دی کہ انگریز فوج توپخانے سے مسلح ہونے کے باوجود ظہر تک ڈیڑھ کوس پیچھے ہٹ چکی تھی۔ میدان صاف ہوا تو کھرل سردار نے نماز عصر کی نیت باندھ لی۔ ادھر برکلے بھی پنجابی سپاہیوں کے ہمراہ قریب ہی چھپا ہوا تھا۔ وہ دوسری رکعت تھی، جب برکلے نے گولی مارو کا آرڈر دیا، جیسے ہی گولی کھرل سردار کو لگی سردار سجدے میں گر گیا۔ رائے احمد خان کھرل اور سارنگ کھرل اپنے اکثر ساتھیوں کے ہمراہ اس معرکہ میں شہید ہوئے۔انگریز رائے احمد خان کھرل کا سر کاٹ کر لے گئے۔ رائے احمد خان کھرل کے قصبہ جھامرہ کو ملیا میٹ کر دیا، رائے احمد خان کھرل کے سر کو دن کے وقت گوگیرہ جیل کے سامنے لٹکا دیا جاتا اور رات کو جیل میں کڑے پہرے میں رکھا جاتا۔پہریداروں میں ایک سپاہی جھامرے کا تھا۔ اسکی پہرے کی باری آ ئی تو اس نے سر کو گھڑے میں رکھا اور جھامرے پہنچ کر رات کے اندھیرے میں رائے احمد خان کی قبر تلاش کر کے کسی کو بتائے بغیر سر دفنا دیا۔ 22 ستمبر کو راوی کنارے مسٹر برکلے کا مجاہدین سے سامنا ہوا تو مراد فتیانہ، داد فتیانہ، احمد سیال اور سو جا بھدرو نے برکلے کو مار کر اپنے سردار کا حساب برابر کر دیا۔
٭....٭....٭