شنگھائی تعاون تنظیم کے غیر معمولی اجلاس میں شرکت کیلئے وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف بھی ازبکستان پہنچے۔دیگر پانچ ممالک کے سربراہان بھی اس اہم اجلاس میں شرکت کیلئے اپنے اپنے ملکوں سے ازبکستان تشریف لائے۔ ان ممالک میں روس، چین، ترکی ، بھارت اور ایران شامل تھے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس کتنا اہم ہے؟ آگے چل کر اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔ شہباز شریف کا یہ دو روزہ دورہ تھا۔ اُنکے وفد میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سمیت وفاقی وزیر غلام دستگیر اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی شامل تھے۔
شہباز شریف نے دورہ کے دوران روسی، ایرانی، چینی، ترکی اور ازبکستان کے صدور سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران علاقائی اور معاشی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ کئی عالمی امور بھی زیر بحث آئے۔ دفتر خارجہ سے جاری کردہ بیان کے مطابق تنظیمی اجلاس میں آب و ہوا کی تبدیلی اور غذائی صورتحال کے علاوہ دیگر کئی اہم امور پر بھی تبادلہ ¿ خیال کیا گیا۔عالمی لیڈروں کے مابین زیر غور تمام امور پر اتفاقِ رائے پایا گیا۔ کانفرنس کے موقع پر روسی اور چینی صدور کے درمیان ہونے والی ملاقات دنیا کی توجہ کا محور رہی۔ جس میں خطے میں ہونےوالی تبدیلیوں، علاقائی و عالمی معاملات بشمول روس اور یوکرین جنگ بھی زیر بحث آئی۔ بھارت سے نریندر مودی بھی اجلاس میں شرکت کیلئے آئے لیکن چونکہ باضابطہ طور پر نریندر مودی کی پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات طے نہیں تھی اس لیے یہ ملاقات نہ ہوئی۔ البتہ کانفرنس میں انہوں نے اپنے اپنے ملکوں کی نمائندگی کی۔یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہوا جب گزشتہ دو برسوں کے دوران دنیا کی جیو پولیٹیکل (جغرافیائی سیاسی) صورت حال میں کتنی ہی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ رواں سال فروری میں روس اور یوکرین میں شدید کشیدگی اور جنگ کی وجہ سے روس کی امریکہ اور اُسکے اتحادی ممالک کے ساتھ مخاصمت اور تناﺅ میں بے حد اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکہ اور چین کے مابین باہمی تعلقات کے حوالے سے سرد مہری بڑھی ہے۔ ان حالات کے تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا ہونا ایک اہم واقعہ تھاجس پر دنیا بھر کی نظریں مرکوز رہیں۔تنظیم کا یہ 22واں دو روزہ اجلاس تھا جو ازبکستان کے دارالحکومت سمرقند میں منعقد ہوا۔ ازبک صدر شوکت مرزایوف اس کانفرنس کے میزبان تھے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام روس، کرغزستان، تاجکستان، چین، قازقستان اور ازبکستان کی مشترکہ کوششوں سے 2001ءمیں عمل میں آیا۔
10جولائی 2015ءمیں بھارت اور پاکستان بھی اس تنظیم کے رکن بن گئے۔ اس کا مرکزی دفتر 15جون 2001ءمیں چین کے شہر بیجنگ میں قائم ہوا۔ تنظیمی زبان روسی اور چینی تھیں۔ پاکستان نے تنظیم میں شامل ہونے کے بعد 2005ءمیں اسکے اجلاسوں میں شرکت کرنا شروع کی۔ پاکستان کی شمولیت سے تنظیم کے رکن ممالک کی تعدادآٹھ ہو گئی۔ 9جون2017ءمیں پاکستان اور بھارت کو تنظیم کی مستقل رکنیت مل گئی۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور تمام تر مسائل کے حل کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کا دائرہ مزید بڑھانے پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ اجلاس کے اختتام پر تنظیمی ممالک کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اُس میں کہا گیا ہے کہ اجلاس نے باہمی معاملات میں مقامی کرنسیوں کا حصّہ بڑھانے کے روڈ میپ کی منظوری دے دی ہے جبکہ گرین ہاﺅس گیس کے اخراج میں کمی کیلئے ایک دوسرے کی مدد پر اتفاق کیا گیا ہے۔ تمام تنظیمی رکن ممالک نے توانائی کے شعبے کا انفراا سٹرکچربہتر بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ گلوبل انرجی کی نگرانی کا شفاف نظام قائم کرنے کی بات بھی سامنے آئی ہے۔اعلامیے کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کے منفی نتائج کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تنظیم کے تمام رکن ممالک نے اعلامیے کے مندرجات سے اتفاق کیا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ تنظیم طے کیے گئے تمام نکات پر سنجیدہ ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے بعد ترک صدر طیب اردوان نے سماجی رابطوں کے پیجز پر اپنے پیغام میں کہا ”مجھے ازبکستان میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ہم خلوص دل سے یقین رکھتے ہیں کہ ہم اپنی مشترکہ کوششوں کے ساتھ اپنے تعاون کو بہت زیادہ بلند سطح پر لے جائینگے۔“چینی صدر نی جن پنگ نے شنگھائی تعاون تنظیم کو اراکین ممالک کے درمیان یک جہتی اور ہم آہنگی کی مضبوط علامت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کو روسی کھاد کی ترقی پذیر ممالک کیلئے ترسیل پر عائد پابندیاں ختم کر دینی چاہئیں کیونکہ دنیا بھر سے تجارت خود یورپی یونین کے مفاد میں ہے۔
پاکستانی وزیراعظم نے روسی صدر سے بھی ملاقات کی ایک طویل نشست کی جس میں باہمی تجارت کے فروغ اور پاکستان کو روس سے سستی گیس کی سپلائی کے معاملات پر گفتگو کی گئی۔ روسی صدر نے اس موقع پر کہا کہ روس سے گیس کی سپلائی کے حوالے سے پہلے ہی سے پائپ لائن موجود ہے۔ دونوں ملک سنجیدہ ہوں تو جلد اس پر کام شروع ہو سکتا ہے۔ روسی صدر کی پیشکش پر وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اطمینان کا اظہار کیا اور گیس سپلائی کی پیشکش پر روسی صدر کا شکریہ بھی ادا کیا۔امید ہے روس سے یہ سستی گیس جب پاکستان آئےگی تو اس سے انرجی کے مسائل کافی حد تک حل ہو جائینگے۔ اس گیس سے جو بجلی پیدا ہو گی وہ سستی ہو گی اور صارفین کو مہنگی بجلی کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑیگا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی یہ دو روزہ کانفرنس نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ سب مل کر بیٹھیں اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر یک جہتی اور ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں تو دنیا میں بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم : اجلاس اتنا اہم کیوں؟
Sep 21, 2022