جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے وزیر اعظم محمد شہباز شریف نیو یارک کا سفر کر رہے ہیں ۔جنرل اسمبلی کے اجلاس کی حیثیت محض رسمی ہوتی ہے لیکن اس اجلاس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس موقع پر ساری دنیا کے لیڈر جمع ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر کے ساتھ ملاقاتوں کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔بتایا گیا ہے کہ ایک عشائیے کی تقریب میں جناب شہباز شریف کی ملاقات امریکی صدر جو بائیڈن سے بھی ہو گی۔ اس کے علاوہ وہ کن کن رہنماﺅں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اس کا انحصار واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے پر ہے کہ وہ کس کس سے وقت لینے میں کامیاب ہو پاتے ہیں ۔جنرل اسمبلی میں تقریرکے دوران وزیر اعظم شہباز شریف ممکنہ طور پر مسئلہ کشمیر کا ذکر کرینگے اور عالمی برادری سے اپیل کرینگے کہ وہ اس کا پر امن حل نکالیں۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ گلوبل وارمنگ اور اس کی وجہ سے پاکستان میں آنیوالے سیلاب کی قیامت خیزی کا بھی ذکر کرینگے ۔مسئلہ کشمیر پچھتر برس سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور سلامتی کونسل نے کوئی نصف درجن قراردادیں اسکے حل کیلئے منظور کرا رکھی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ریاست جموں و کشمیر میں ایک استصواب مرتب کیا جائےگا جس میں کشمیری عوام اس امرکا فیصلہ کرینگے کہ وہ بھارت اور پاکستان دونوں میں سے کس کےساتھ شامل ہو نا چاہتے ہیں ۔بد قسمتی سے یہ استصواب آج تک منعقد نہیں ہو سکا۔اسکی ایک وجہ تو بھارت کی ہٹ دھرمی ہے ،دوسری وجہ اقوام متحدہ کی سستی اور کاہلی ہے ،تیسری وجہ ایک نئی سامنے آئی ہے جس پر میں ایک علیحدہ کالم لکھ چکا ہوں ۔ یہ کالم ایمبیسیڈر ملک ندیم عابد کے حوالے سے لکھا گیا تھا جو ہیومن راٹس جنرل کے سیکرٹری جنرل کے طور پر فرائض ادا کر رہے ہیں اور اس کمیشن کی وجہ سے اقوام متحدہ سے بھی منسلک ہیں۔ایمبیسیڈر ملک ندیم نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کو پچھلے پچھتر برسوں میں سیکرٹری جنرل یواین او کے نام ایک خط لکھا چاہئے تھا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں استصواب کیا جائے۔پاکستان نے آج تک یہ خط ارسال نہیں کیا ۔میری یہ سطور اگر وزیر اعظم یا وزارت خارجہ کی نظر سے گزریں تو انہیں چاہئے کہ اپنے ساتھ یہ خط لکھ کر لے جائیں اور یو این او کے سیکرٹری جنرل کے حوالے کر دیں تاکہ پاکستان سے اب تک جو کوتاہی سر زد ہوئی ہے اس کا ازالہ ہو سکے ۔ایمبیسیڈر ملک نے ایک اور کوتاہی کی بھی نشاندہی کی ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کو آزاد کشمیر میں یو این او کے استصواب کمشنر کا ایک دفتر قائم کرنا چاہئے تھا جو کہ نہیں کیا گیا ۔کیا ہی بہتر ہو کہ وزیر اعظم کے نیویارک پہنچنے سے پہلے پہلے مظفر آباد کی کسی عمارت کو استصواب کمشنر کیلئے مخصوص کر دیا جائے تاکہ پاکستان اپنے فرائض سے عہدہ برا ہو سکے ۔وزیر اعظم کو بھارت کی طرف سے پانچ اگست دو ہزار انیس کو کشمیر میں جبر و ستم کے نئے دور کا آغاز کرنے کی بھرپور مذمت کرنی چاہئے ۔بھارت نے اس دن اپنے آئین میں ترمیم کی اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے اپنی ایک ریاست قرار دے ڈالا ۔ساتھ ہی اس کے تین ٹکڑے بھی کر دیے گئے اور کشمیری عوام کو ایک غضبناک کرفیو کے تحت گھروں میں بند کر دیا گیا ۔انکے رابطے دنیا سے کاٹ دیے گئے ۔بھارت کے اپوزیشن لیڈروں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھی کشمیر میں جانے سے روک دیا گیا۔جس کی وجہ سے دنیا کو کچھ پتا نہیں کہ بھارت نے پچھلے چار برس میں جبر وستم کے کتنے پہاڑ توڑ ڈالے ہیں،کتنے بچوں کو یتیم کیا ہے ،کتنے بوڑھوں کے سینے چھلنی کیے ہیں ،کتنے نوجوانوں کو لاپتہ کیا ہے اور کتنی خواتین کی عصمت لوٹی ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف کو بھارت کے اس جبر کے خلاف بھر پور احتجاج کرنا چاہئے اور واضح اور دو ٹوک الفاظ میں عالمی برادری کو خبر دار کرنا چاہئے کہ بھارت نے تنازعہ کشمیر کی وجہ سے پورے خطے کو ایٹمی جنگ کے خطرات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم کو مطالبہ کرنا چاہئے کہ کشمیر کی حیثیت متعین کرنے کیلئے کوئی وقت ضائع کیے بغیر استصواب مقرر کیا جائے ۔
جہاں تک گلوبل وارمنگ اور پاکستان میں سیلاب کی قیامت خیزی کا تعلق ہے تو وزیر اعظم کو اپنی تقریب میں بلا جھجک یہ کہنا چاہئے کہ پاکستان میں جو تباہی مچی ہے اس کی ساری ذمہ داری ترقی یافتہ صنعتی ممالک پر عائد ہوتی ہے جو گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی خرابی کے اصل ذمہ دار ہیں ۔اورجن کی وجہ سے پاکستان میں غیر معمولی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور صدیوں سے جمے ہوئے گلیشئرپگھل کر ہلاکت آفرین سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں ۔وزیر اعظم جہاں فلڈ ریلیف کیلئے عالمی برادری کا شکریہ ادا کریں وہاں وہ اس امر پر بھی زور دیں کہ عالمی برادری کی یہ امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے ۔ماحولیاتی خرابی پیدا کرنیوالے ممالک کو پاکستان کے نقصانات کا سو فیصد ازالہ کر نا چاہئے۔ہوسکتا ہے وزیر اعظم پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشرتی صورتحال کا بھی ذکر کریں ،ڈالر اور مہنگائی کی اڑان کی بھی نشان دہی کریں اور پاکستان جس طرح قرضوں کے جنجال میں پھنس کر ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے وہ ممکنہ طور پر ان معاملات کو بھی اپنی تقریر کا موضوع بناسکتے ہیں ۔وزیر اعظم کو دبنگ الفاظ میںجنرل اسمبلی کے ایوان سے خطاب کرنا چاہئے ۔اسلامو فوبیا کی مذمت کرنی چاہئے ۔اور پاکستان کو واحد اسلامی ایٹمی طاقت بننے کی جو سزا دی جا رہی ہے اس پر بھی بھرپور احتجاج کرنا چاہئے ۔