عمران خان: وزیراعظم سے محبوب لیڈر تک

Sep 21, 2022

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو پاکستان کا وزیراعظم بننے کے لیے 22 سال لگے۔ انہوں نے وزیراعظم بننے کے لیے شب و روز جدوجہد کی اور" ایاک نعبد و ایاک نستعین" کی تسبیح پڑھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی محنت لگن اور جذبے کو قبول کر لیا اور وزیراعظم بنانے والوں کے دل میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا کر دیا۔
 2018 ءکے انتخابات میں عمران خان کو دوسری جماعتوں کے مقابلے میں اکثریت مل گئی ۔ یہ اکثریت اس قدر نہ تھی کہ اکیلے حکومت تشکیل دے سکتے۔ حکومت بنانے کے لیے دوسری جماعتوں کو تعاون پر آمادہ کرنا عمران خان کے لئے کوئی آسان بات نہیں تھی۔ "نیوٹرلز" عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے جہانگیر ترین اورعلیم خان کو گرین سگنل دے دیا۔ عسکری سگنل کے بعد عمران خان مرکز اور پنجاب میں مخلوط حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔ مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے لیڈروں نے عمران خان کو ’سلیکٹیڈ‘ وزیراعظم اور ان کی حکومت کو" ہائبرڈ " قرار دے دیا اور الزام لگایا عمران خان کٹھ پتلی ہیں اور امور داخلہ اور خارجہ کے کلیدی نوعیت کے فیصلے اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی سیاسی زندگی کی بڑی بلنڈر یہ کی کہ انہوں نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ اپنا رابطہ ہی توڑ لیا اور چار سال کے دوران کوئی ایک بھی بڑا عوامی جلسہ نہ کیا جس سے یہ تاثر پھیلا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد عوامی مقبولیت کھو چکے ہیں۔ ان کو حکومت چلانے کا چونکہ تجربہ نہیں تھا اس لئے اسٹیبلشمنٹ آہستہ آہستہ حکومت پرحاوی ہوتی گئی۔ عمران خاں کا پنجاب میں عثمان بزدار کی صورت میں وزیر اعلی کا انتخاب غیر معیاری اور غیر مقبول تھا۔ اس فیصلے کی وجہ سے تحریک انصاف کے اندر اضطراب اور بے چینی پیدا ہوئی جس کا بروقت ادراک عمران خان نہ کر سکے۔
 اپوزیشن کی جماعتوں نے اس اندرونی بے چینی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہانگیر ترین اور علیم گروپ پر ورک شروع کر دیا۔ عمران خان اگر سیاسی بصیرت اور دانش کا مظاہرہ کرتے تو وہ دو سال کے بعد پنجاب کے وزیر اعلی کو تبدیل کر دیتے اور کسی پرانے پارٹی لیڈر کو وزیر اعلی بنا دیتے ۔ مگر ان کا عقیدہ کی حد تک یقین تھا کہ جب تک عثمان بزدار وزیراعلیٰ رہیں گے وہ مرکز میں وزیراعظم بر قرار رہیں گے۔ عمران خان چونکہ اپنی پارٹی سے کٹ چکے تھے یا کاٹ دیے گئے تھے اس لئے وہ عوامی سطح پر اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ نہ کرسکے اور یہ تاثر گہرا ہوتا گیا کہ وہ واقعی سلیکٹڈ ہیں اور عوام کے ووٹوں کی طاقت سے منتخب نہیں ہوئے۔ 
عمران خان عوام کو گڈگورننس دینے میں بھی بری طرح ناکام ہوئے ۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں نے پاک فوج کے جرنیلوں کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور ”مفاہمت بذریعہ مزاحمت“ کی حکمت عملی اپنا لی۔ عوامی سطح پر تنقید کی وجہ سے پاک فوج کے جرنیل دباو¿ میں آگئے عمران خان عوامی سطح پر اپوزیشن کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہے۔ ان کی نیشنل ازم پر مبنی خارجہ پالیسی کی وجہ سے امریکہ بھی ان کے خلاف ہو گیا اور اس نے اپوزیشن جماعتوں کی سرپرستی شروع کردی۔ اور آرمی چیف پر بھی دباو¿ ڈالا کہ عمران خان کو اقتدار سے رخصت کیا جائے اور اس کے لیے تحریک عدم اعتماد کا سہارا لیا جائے۔ عمران خان اگر مناسب وقت پر اسمبلی توڑ دیتے تو ان کے سیاسی مخالفین کو حکومت بنانے کا موقع ہی نہ ملتا۔ ان کے خلاف سازش ناکام ہو جاتی اور ملک میں نئے انتخابات ہو جاتے۔
 پاکستان کے عوام گزشتہ تیس سالوں سے مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے لیڈروں کے چہرے دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکے تھے اور اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے کردار سے بھی مطمئن نہیں تھے جب یہ ریاستی ادارے عمران خان کے خلاف کھڑے ہوگئے تو پاکستان کے عوام نے عمران خان کو اپنا "معشوق " بنا لیا۔ یہ غیر متوقع رد عمل خود عمران خان کے لیے بھی حیران کن تھا۔ وہ وزیراعظم ہاو¿س سے اپنی ڈائری لے کر بنی گالا چلے گئے عوام کو ان کی یہ ادا بھی بھا گئی اور انہوں نے اپنے ہی سلامتی اور آزادی کے ادارے کو گہری چوٹ لگا دی۔
 عمران خان وزیر اعظم کی حیثیت سے پاکستان بھر میں مقبول نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ وہ ایک کے بعد دوسرا انتخاب ہار تے چلے گئے اور ان کے سیاسی مخالفین کے حوصلے بڑھتے گئے۔ وزیراعظم کے منصب سے علیحدہ ہونے کے بعد جب عوام نے ان کو اپنا معشوق بنا لیا وہ اس قدر مقبول ہیں کہ انتخابات کی سیریزجیت رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام جب کسی کو معشوق بنا لیتے ہیں تو اس کی ہر ادا ان کو پسند آتی ہے۔ 
پاکستان میں سلطان راہی کو اس کی بڑھکوں کی وجہ سے بہت پذیرائی ملی اور ان کی فلم مولا جٹ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ عمران خان عوام کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں چنانچہ وہ عوام کا پسندیدہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور سیاسی بڑھکیں لگاتے رہتے ہیں ۔ معشوق کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ہر بات کہہ سکتا ہے لہٰذا انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی اگلے انتخابات تک روک دی جائے۔ یہ بات کوئی زیرک سیاستدان نہیں کہہ سکتا البتہ معشوق ضرور کہہ سکتا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ کچھ دنوں کے بعد معشوق یہ فرمان بھی جاری کردے کہ پاکستان کی عدالتیں اور ریاستی ادارے بڑے مقدمات کی سماعت اور کارروائی مو¿خر کر دیں اور اگلے انتخابات کا انتظار کریں۔ جب تک معشوق وزیراعظم کی کرسی پر نہ بیٹھ جائے ریاست منجمد ہو کر رہ جائے۔ معشوق چونکہ معشوق ہوتا ہے اس لیے اسے پورا اختیار ہوتا ہے کہ اس کے دل میں اور زبان پر جو آئے بلا خوف و خطر کہہ ڈالے۔
 پاکستان کے عوام اگر بیدار اور باشعور ہوتے تو وہ عمران خان سے یہ سوال کرتے کہ وہ اپنی چار سالہ کارکردگی عوام کو بتائیں اور جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ان کے بارے میں بھی عوام کو اعتماد میں لیں اور انتخابات کے بعد کا قومی ایجنڈا دیں مگر عوام چونکہ عمران خان کو معشوق کا درجہ دے چکے ہیں اس لیے معشوق سے سوال نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی ہر بات پر لبیک کہا جاتا ہے۔ پاکستان اور عوام کا مقدر معشوق کے ہاتھ میں ہے۔ معشوق اپنے عاشقوں کے ساتھ کیا کرے گا اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ معشوق کی تمام سیاسی سرگرمیوں کا مرکز اور محور وزیراعظم کی کرسی ہے جو اسے بے چین کر رہی ہے اور وہ جلد سے جلد اس کرسی پر دوبارہ بیٹھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ معشوق یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ موجودہ حکومت فوری انتخابات کا اعلان کرے اور اسکے راستے میں نہ آئے وگرنہ وہ اپنے عاشقوں کو ایک اشارہ کرے گا جو اسلام آباد میں اکٹھے ہو کر موجودہ کمزور ترین حکومت کا دھڑن تختہ کر دیں گے۔ عوام عاشق ہیں اور عمران خان معشوق ہیں عاشقی اور معشوقی کا یہ رشتہ پاکستان کے لیے کیا نتائج پیدا کرتا ہے اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے تمام ریاستی ادارے اور حکومت معشوق کی غیر معمولی مقبولیت کی وجہ سے دباو¿ میں آ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے لیڈر بھی معشوق کے سامنے سچی بات کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ عشق ریاست پر حاوی ہوچکا ہے جبکہ عقل دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔ عمران خان کے نظریاتی استاد علامہ اقبال نے کہا تھا۔ 
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارا نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے 
٭....٭....٭

مزیدخبریں