فرحان انجم ملغانی
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کے وطن واپس آنے کے اعلان کے بعد ملکی سیاست میں طاری جمود ٹوٹتا محسوس ہورہا ہے اور پر مسلم لیگ ن کے ورکرز متحرک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، مسلم لیگ ن کے رہنماو¿ں نے بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی عوامی رابط مہم شروع کر رکھی ہے اور حیرت انگیز طور پر اس بار ان کا ہدف تنقید پی ڈی ایم میں شامل انکی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن ہے۔ماضی قریب میں مسلم لیگ ن کا لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ اس بار بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے زور شور سے دہرایا جا رہاہے اور وہ مہنگائی کے ایشو کو بھی اجاگر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ پیپلز پارٹی بھی حالیہ مہنگائی کی ذمہ دار پی ڈی ایم اتحادی حکومت کی شئیر ہولڈر تھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب اس کا سارا ملبہ مسلم لیگ ن پر ڈال کر خود کو اس سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔جماعت اسلامی بھی مہنگائی، بجلی اور پیڑولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے پر باقاعدہ احتجاجی تحریک شروع کئے ہوئے ہے مگر نگران حکومت نے اس عوامی ردعمل کے برخلاف پیڑول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہی کیا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف سمیت باقی جماعتیں زیادہ متحرک دکھائی نہیں دیتیں ، پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے اہم رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی سمیت متعد اہم رہنما پاپند سلاسل ہیں جبکہ باقی ماندہ قیادت تاحال رپوش ہے یا اعلان تعلقی کے بعد وقتی طور پر سیاسی سرگرمیوں سے دور ہے۔ ماضی کی نسبت میاں نواز شریف نے بھی لندن میں سیاسی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں وہ دوبارہ میڈیا میں ان ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے 21 اکتوبر کو ان کی متوقع وطن واپسی کے سلسلہ میں تیاری شروع کر دی ہیں اور کارکنوں کو اپنے قائد کا بھرپور استقبال کرنے کیلئے متحرک کرنے کیلئے ضلعی سطح پر کمیٹیاں قائم کی جا رہی ہیں۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے کنٹرول سنٹر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ جلد انتخابات کے لئے حلقہ بندیوں کا دورانیہ کم کر دیا ہے حلقہ بندی کمیٹیوں کو 26 ستمبر تک کام مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اس سے لگتا ہے کہ جلد الیکشن کروانے کے لئے الیکشن کمیشن پر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے دباو¿ بڑھ رہا ہے اسی وجہ سے الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن کی تیاریوں میں تیزی آگئی ہے ۔نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اپنی کابینہ کے ہمراہ ملتان کا دورہ کیا پہلی بار کابینہ کا اجلاس ملتان میں ہوا حسب معمول وزیر اعلیٰ کا زیادہ فوکس ہسپتالوں پر رہا انہوں نے مظفرگڑھ کا بھی دورہ کیا وزیر اعلیٰ کی جانب سے ہسپتالوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے زیر تعمیر ہسپتالوں کی تعمیر میں کافی پیش رفت ہوئی ہے زیادہ تر منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں پہنچ گئے ہیں وزیر اعلیٰ نے رات گئے نواب پور روڈ کا بھی دورہ کیا انہوں نے اہل علاقہ کو یقین دہانی کرائی کہ روڈ کی تعمیر جلد شروع کی جائے گی یہ روڈ چار سال سے واسا کی جانب سے نئی سیوریج لائن ڈالنے کے بعد سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لاکھوں کی آبادی کو آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاہم وزیر اعلیٰ کے حکم پر نواب پور روڈ کی تعمیر کے لئے 48 کروڑ روپے کا تخمینہ لاگت تیار کر کے متعلقہ حکام کو بجھوا دیا گیا ہے امید کی جا رہی ہے کہ یہ منصوبہ جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی خاص طور پر کپاس (وائٹ گولڈ) کو پاکستان معیشت کا گولڈن جیک پاٹ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اگر ہم ملکی ضروریات کے مطابق کپاس پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس طرح روئی وغیرہ کی درآمدات کم کر کے اربوں ڈالر ز کا کثیر زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے ۔کیونکہ ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کثیر زرمبادلہ خرچ کر کے درآمدات پر انحصار کرنا پڑتا ہے لیکن اس زرمبادلہ کو بچانے کے لئے کاشتکاروں کو سہولیات دینی پڑیں گی زرعی مداخل کی کم قیمت پر دستیابی یقینی بنانا پڑے گی ان کو فصل کا نرخ اچھا دینا پڑے گا ورنہ کپاس کے مزید کاشتکار مکئی اور دیگر فصلوں پر شفٹ ہو جائےں گے لہٰذااس کے لئے کپاس کی امدادی قیمت کا ہرسال بروقت اعلان ہونا چاہیے ۔
رواں سال پنجاب میں پیداواری ہدف 82 لاکھ گانٹھ مقرر کیا گیا جنوبی پنجاب میں کپاس کی کاشت کا ہدف 45 لاکھ 54 ہزار ایکڑ مقرر کیا گیا تھا لیکن اس کے مقابلے میں 43 لاکھ ایکڑ اراضی پر کپاس کاشت کی گئی ہے جبکہ محکمہ زراعت ملتان ڈویژن ہدف سے زیادہ رقبے پر کپاس کاشت کروانے میں کامیاب رہا ہے بلکہ موجودہ سال کو کپاس کی بحالی کا سال کہا جا رہا ہے امسال کپاس کی مارکیٹ مستحکم رہنا بھی خوش آئند ہے اس سے کاٹن سپلائی پر مثبت اثرات پڑیں گے بلکہ محکمہ زراعت کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پنجاب کو کپاس کی ویلی میں تبدیل کر دیا گیا ہے حکومت کی جانب سے اس سال کپاس کی امدادی قیمت فی من 8500 روپے مقرر کی گئی اب بھی مارکیٹ میں نرخ فی من 8000 سے 9000 روپے کے درمیان ہیں جو کہ خوش آئند ہے اس کے اثرات آئند سال بھی مثبت رہنے کا امکان ہے کیونکہ کاشتکار اگلے سال بھی کپاس کی کاشت کو ترجیح دے گا۔ ملک میں فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیلئے اب ڈرونز اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے سپرے کا سلسلہ بھی شروع کیا جا چکا ہے ڈی جی خان ڈویڑن میں کپاس کی فصل پر ڈرونز اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہزاروں ایکڑ پر جدید کیمسٹری کی حامل زرعی زہروں کا سپرے کیا گیا ہے تاہم اب تک کی صورتحال کے مطابق کپاس کی صورتحال تسلی بخش ہے۔حکومت کو کپاس کی پیداواری لاگت میں کمی لانے کے اقدامات بھی کرنے ہوں گے انہیں کھاد ڈیزل بجلی سیڈ ودیگر زرعی مداخل سستے داموں فراہم کیے جائیں نہری پانی کی دستیابی یقینی بنانے کے اقدامات کرنے ہوں گے اس سال پہلی بار کپاس کی فصل کی مانیٹرنگ کے مختلف محکموں کے سیکرٹریز ودیگر افسران پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جو کپاس کے کاشتکاروں کو درپیش ہے وہ کوالٹی سیڈ کی عدم دستیابی ہے پنجاب سیڈ کونسل بھی کوالٹی سیڈ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ سیڈ مافیا ہرسال کپاس کے کاشتکاروں کو کوالٹی سیڈ کے نام پر لوٹ رہاہے۔حکومت کو ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدید پیداواری ٹیکنالوجی پر منتقلی کے اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ اربوں ڈالر کا کثیر زرمبادلہ خرچ کر کے درآمدات پر انحصار کرنا پڑے گا ۔