پاکستان جب بھی بھارتی جارحیت اور بھارتی دہشت گردی کی بات کرتا ہے تو دنیا اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ عالمی ادارے اور طاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ شاید دونوں ملکوں کے مابین کچھ تنازعات ہیں جس وجہ سے دونوں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھی بھارتی ہاتھ ہوتا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں ہے۔ اس کا اعترافی بیان بھی جاری ہو چکا ہے۔ کلبھوشن جادیو بھارتی فوجی ہے اور وہ پاکستان میں امن و امان خراب کرنے اور علیحدگی پسندوں کو بھڑکانے اور ان کی ہر طرح سے معاونت کرنے کے مشن پر تھا۔ اس دوران وہ گرفتار ہوتا ہے اور اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان میں دہشت گردی کے درجنوں واقعات میں بھارتی عمل دخل نظر آتا ہے لیکن دنیا کے بڑے ممالک اور اداروں نے پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنے اور دہشت گردی پھیلانے والی بھارت کی کارروائیوں کا ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔ انسانی جان ایک بھی ہو تو اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا لیکن پاکستان میں سینکڑوں نہیں ہزاروں جانیں بھارتی دہشت گردی کا نشانہ بنی ہیں اور کشمیر میں لاکھوں مسلمان بھارتی مظالم کی وجہ سے ابدی نیند سو چکے ہیں لیکن عالمی برادری کو کبھی ہوش نہیں آئی پاکستان دنیا کو خبردار کرتا رہا کہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم پر نگاہ رکھیں اور اس کی متعصب سوچ کو پروان نہ چڑھنے دیں ورنہ یہ آگ سب کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ اب وہی ہو رہا ہے کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجر کا قتل آغاز سمجھیں نریندرا مودی کی قیادت میں بھارت میں شدت پسندی اور دہشت گردی کی نئی منزلیں طے کی ہیں اور اس سفر میں دنیا کے بڑے ممالک بالخصوص امریکہ نے نریندرا مودی اور اس کے ساتھیوں کی ہر طرح سے معاونت اور آزادی فراہم کی ہے۔ نریندرا مودی اور ان کے ساتھیوں کو کھلی چھٹی دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت کی دیگر ممالک میں مداخلت اب کینیڈا تک پھیل چکی ہے۔ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی سفاکانہ واردات کے بعد امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور یورپی ممالک بھی خبردار ہوں کیونکہ آنے والے وقتوں میں بھارت ان ممالک کے امن و امان کو تباہ کیے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل نے کینیڈا کو تو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہاں اس کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارتی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کی ہے اور دہشت گردوں کے سرغنہ نریندرا سنگھ مودی ابھی تک کوئی جواب نہیں دے سکے۔ اگر ہزاروں کلو میٹر دور بھارتی دہشت گرد ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں نشانہ بنا سکتے ہیں تو پھر سوچیں پاکستان میں وہ کس حد تک امن و امان تباہ کرنے کے لیے کوششیں کرتے ہوں گے۔ بہرحال دنیا کو احساس تو ہوا کہ پاکستان کی طرف سے بھارت پر اٹھائے جانے والے سوالات حقیقت پر مبنی تھے۔ کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجر کے قتل نے دنیا بھر میں سکھ قوم کے جذبات کو بھڑکایا ہے۔ بالخصوص بیرونی دنیا میں رہنے والے سکھوں نے شدید احتجاج کیا ہے اور سکھ فار جسٹس اور خالصتان تحریک کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے اپنے ساتھی ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد کہا ہے کہ پوری سکھ قوم بھارت سے آزادی چاہتی ہے ایک سے ڈیڑھ لاکھ سکھ شہید ہوچکے ہیں۔خالصتان کی تحریک کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شہیدوں کے خون نے سکھوں کی تحریک کو جلا بخشی ہے۔ ہردیپ سنگھ نجر کو بھارت کے اشارے پر گولیاں ماری گئیں۔ بھارتی دھمکیوں کے باوجود نڈر ہوکر تحریک کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔
ایک طرف دنیا بھر میں سکھ بھارتی جارحیت پر آواز تو بلند کر رہے تھے لیکن ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد خالصتان کے مطالبے میں شدت آ گئی ہے جبکہ کچھ ممالک بھی بھارتی دہشت گردی کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کہیں اس مرتبہ بھی کاروباری مفادات تو راستہ نہیں روکتے۔ جہاں تک کینیڈا کا تعلق ہے وہ تو بھارت سے تجارتی تعلقات بھی روک رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے پانچ اہم ممالک امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے انٹیلی جنس اتحاد نے بھی ہردیپ سنگھ نجر قتل کیس میں کینیڈا کی جانب سے تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کر دی ہے۔ آسٹریلیا نے بھی نجر قتل کیس میں تشویش سے بھارت کواعلیٰ سطح پر آگاہ کر دیا ہے۔
ان حالات میں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر بھارتی جارحیت، دہشت گردی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کلبھوشن جادیو اور اس طرح کی تمام کارروائیوں کو بھارت کے خلاف متحد ہونے والے ممالک تک یاددہانی کے طور پر پہنچانے کی ضرورت ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی اٹھانا چاہیے۔ سفارتی سطح پر ہر وہ کام جو پاکستان کر سکتا ہے اسے کرنا چاہیے۔ بالخصوص کشمیر میں دہائیوں سے بھارتی مظالم کو ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے رکھنا چاہیے۔ ہردیپ سنگھ نجر کا قتل کوئی اتفاق یا حادثہ نہیں یہ بھارت کی تاریخ ہے۔ اس کے حکمرانوں کی عادت ہے۔ اگر خالصتان تحریک زوروں پر ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بھارت میں سکھوں کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے اور دہائیاں گذرنے کے بعد آج بھی سکھ قوم مختلف بھارتی حکومتوں سے مطمئن نہیں ہو سکی۔ بھارت سکھوں کے جائز مطالبات کو ماننے کے بجائے ان کی جائیدادیں ضبط کرنے گرفتار کرنے اور اندرون و بیرون ملک اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو گولیاں مارنے کی حکمت عملی ہے تحت آگے بڑھ رہا ہے۔ کاش کہ اب ہی دنیا تجارت والی آنکھ بند کر کے انسانیت والی آنکھ کھولے اور دیکھے کہ مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں مسلمان دہائیوں سے کس اذیت میں زندگی گذار رہے ہیں اور پانچ اگست دو ہزار انیس کے بعد بالخصوص ان کی زندگی کتنی مشکل ہو چکی ہے۔ بھارت ہر طرح سے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت اور آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بہرحال پاکستان کو اس موقع سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے اور مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے مدلل اور موثر انداز میں پیش کرنا چاہیے۔ دنیا کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ کسی انسان کا قتل کینیڈا میں ہو، پاکستان میں ہو یا کوئی کشمیری اپنا حق لینے کے لیے آواز بلند کرے اور اس کی آواز خاموش کروا دی جائے انسانی جان کی اہمیت ایک جیسی ہے۔ اگر ہردیپ سنگھ نجر جو کہ کینیڈین شہری ہے اگر اس کے قتل پر سب متحد ہو سکتے ہیں تو بھارت کے ظالم حکمرانوں سے لاکھوں کشمیریوں کے خون کا حساب بھی لینا چاہیے۔
آخر میں نوشی گیلانی کا کلام
محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا
جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا
جلائے رکھوں گی صبح تک میں تمھارے رستے میں اپنی آنکھیں
مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا
جو حرف لوحِ وفا پہ لکھے ہوئے ہیں ان کو بھی دیکھ لینا
جو رائیگاں ہو گئیں وہ ساری عبادتیں بھی شمار کرنا
یہ سردیوں کا اداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گئی ہیں
جب ان کی یخ بستگی پرکھنا، تمازتیں بھی شمار کرنا
تم اپنی مجبوریوں کے قِصے ضرور لکھنا وضاحتوں سے
جو میری آنکھوں میں جَل بجھی ہیں، وہ خواہشیں بھی شمار کرنا