سیاست پر جاگیرداروں اور صنعت کاروں کا مکمل قبضہ ہے اور سیاست میں دولت کا عنصر اس قدر حاوی ہوچکا ہے کہ عام آدمی کے لئے کونسلر کی نشست جیتنا بھی ممکن نہیں رہا اور ملک کا اقتدار مکمل طور پر دولت مندوں کے قبضے میں آچکا ہے۔ تمام حکمران سیاسی جماعتیں دولت کے بلبوتے پر سیاست کرتی رہی ہیں ۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ موجودہ نظام کی موجودگی میں ہارس ٹریڈنگ سمیت اکثریت مسائل کا حل ممکن ہی نہیں۔
اس وقت تو عوام کا مطالبہ ہے کہ انتخاب سے پہلے سخت‘ لے لاگ اور غیر جانبدار احتساب کیا جائے اور سعودی عرب کی طرح کرپٹ لوگوں کو منوڑہ جیسے جزیرے میں بند کریں اور کرپشن کا مال واپس لیکر سرعام چوکوں پر لٹکایا جائے۔سخت احتساب اور معیشت کی بہتری کے بعدمتناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات ہونے چاہئیں۔ انتخابی نظام میں اصلاحات کرکے سب سے پہلے تو ہر سیاسی جماعت کو پارٹی الیکشن کا پابند کیا جائے اور انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرائے جائیں جس سے کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوگا اور ملک بھر میں ہر پارٹی کو اس کے منشور کی مقبولیت کے مطابق نمائندگی ملے گی‘ جلسے جلوسوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔یورپ کے کئی ممالک میں عوام کے مسائل تب حل ہونا شروع ہوئے جب وہاں متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات ہوئے اور سیاست سے دولت کے عنصر کا خاتمہ ہوا جس سے ان ممالک میں ترقی ہوئی۔ موجودہ ہر صوبائی اسمبلی کی نشست کے ایریا کو قومی اسمبلی کی نشست قرار دیا جائے اور ہر قومی اسمبلی کی نشست میں 2صوبائی اسمبلی کی نشستیں بنائی جائیں تاکہ عوام اپنے منتخب نمائندوں تک رسائی پاسکیں۔ سیاست پر دولت مندوں کا مکمل قبضہ ہے اور مخصوص خاندان ملک بھر کے ایوان اقتدار پر قابض ہیں اور یہی مخصوص خاندان ہر حکومت میں لبادہ تبدیل کرکے شامل رہتے ہیں اور ان کا مقصد صرف اپنی دولت کا تحفظ ہوتا ہے‘ تھانے اور پٹوار خانے پر ان خاندانوں کا مکمل قبضہ رہتا ہے اور یہ لوگ سیاست پر خرچ کی گئی اپنی دولت منافع سمیت وصول کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے میرٹ سے ہٹ کر سرکاری افسران مقرر کرکے لوٹ مار کی جاتی ہے۔ یہی لوگ قومی اہم اثاثے اپنے من پسند افراد کو اونے پونے فروخت کرکے پھر ان لوگوں سے اپنی سیاست کے لئے اخراجات وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ ان مخصوص خاندانوں کا مقابلہ کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے اور نظام کی تبدیلی سے ہی سیاست سے دولت کا عنصر ختم کیا جاسکتا ہے۔
ملک بھر میں برطانیہ کی طرز کا بلدیاتی نظام رائج کرکے ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل اور تکمیل بلدیاتی نمائندوں کی ذمہ داری ہو البتہ مقامی ترقیاتی بورڈ میں اس علاقے کے اراکین اسمبلی اور ڈپٹی کمشنرز بھی ممبر ہوں اور ترقیاتی فنڈز ڈپٹی کمشنر کے ذریعے بلدیاتی نمائندوں کی ہدایت کے مطابق خرچ ہوں۔ اس وقت بلدیاتی نظام میں منتخب نمائندوں کو اختیارات حاصل نہیں ہیں۔بلدیاتی انتخابات ہر حالت میں مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں اور بلدیاتی اداروں کی مدت 4سال ہونی چاہئے۔ برطانیہ طرز کا نظام ہی بنیادی عوامی مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے۔یہی نظام ملک بھر میں یکساں نافذ کرکے تمام ناظمین کا برا ہ راست انتخاب ہونا چاہئے ۔ بلدیاتی نظام کو ایسا آئینی تحفظ دیا جائے کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود بلدیاتی نمائندے بااختیار رہ کر اپنی آئینی مدت ہر صورت پوری کریں اور اس نظام کو وفاقی و صوبائی حکومت نہ چھیڑ سکے۔
ہمارے ہاں انتخابی‘ عدالتی اور انتظامی نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اور موجودہ نظام میں رہتے ہوئے عوام کو ریلیف نہیں مل سکتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو ملک کے ہر ڈویژن کو انتظامی صوبہ بنایا جائے ۔ سندھ‘ پنجاب اور کے پی اور بلوچستان کو رقبے کے لحاظ سے فی ایک کروڑ آبادی کو ایک انتظامی صوبہ بنایا جائے اور انتظامی صوبوں کا نام لسانی بنیاد پر نہ ہو کیونکہ صوبوں کے نام لسانی بنیادوں پر ہونے کی وجہ سے ہم بدقسمتی سے اب تک ایک قوم نہیں بن پائے۔ ہر ایک کروڑ کی آبادی کو انتظامی صوبہ بناکر وہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بنچ کا قیام عمل میں لایا جائے اور ججوں کی تعداد دوگنی کردی جائے تاکہ عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف مل سکے اور قانون سازی کرکے دیوانی مقدمات ایک سال اور فوجداری مقدمات 6ماہ اور نیب کے مقدمات کا فیصلہ بھی ایک سال میں ہوجانا چاہئے اور جب تک ملزم عدالت میں باقاعدہ ”مجرم“ ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی گرفتاری کسی صورت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ الزام کی بنیاد پر طویل عرصے تک کسی کو قید رکھنا اور بعد میں اس کا بے قصور ثابت ہوجانے کے واقعات عام ہیں لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے اور ملزم کو گرفتار کرکے اس کی عزت اچھالی جاتی ہے۔ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی اپیل پر 3ماہ میں فیصلہ کردیں۔ انصاف میں تاخیر بھی ایک جرم ہے۔ ہر یونین کونسل کی سطح پر مجسٹریٹ عدالتیں قائم کی جائیں۔ ہر انتظامی صوبہ کو آبادی کے تناسب سے وفاق کی جانب سے براہ راست ترقیاتی فنڈز ملنے چاہئیں ۔ اس وقت عدالتی نظام ایسا ہے کہ لوگ دور دراز دیہات سے ہائی کورٹ میں پیشی کے لئے سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے کئی گھنٹوں بعد جب عدالت پہنچتے ہیں تو ان کے کیس کاز لسٹ میں آخری نمبروں پر ہونے کی وجہ سے کیس کی شنوائی ہوئے بغیر اگلی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ موجودہ نظام میں انصاف کے حصول کے لئے کئی کئی نسلوں کو صبر کرنا پڑتا ہے اور انصاف کے حصول کے لئے اپنے اثاثے تک فروخت کرنے پڑتے ہیں اس کے باوجود انصاف کا حصول مشکل ترین ہوچکا ہے۔ غریب آدمی تو کسی بھی صورت اپنے حق کے حصول کے لئے عدالت نہیں جاسکتا۔ حالانکہ پاکستان کے آئین میں ہے کہ انصاف ہر ہر شہری کا حق ہے لیکن انصاف کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ضروری ہے کہ اہم ترین قومی معاملات اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے تمام جماعتیں ایک میز پر بیٹھ کر ایسے مسودے پر دستخط کریں جس سے فوری طور پر ملک میں انتظامی‘ عدالتی اور بلدیاتی نظام تبدیل ہوسکے۔
اس وقت جو بلدیاتی نظام رائج ہے وہ آدھا تیتر‘ آدھا بٹیر ہے۔ اختیارات و وسائل بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہوں اور ان کے ایم این اے‘ ایم پی اے و سینٹرز میونسپل کارپوریشن‘ ڈسٹرکٹ کونسل و تحصیل کونسل کے ممبرہوں اور مقامی طور پر تمام ترقیاتی کاموں کی منظوری مقامی حکومتوں کے ذمہ ہو جس کے فنڈز کا استعمال مقامی ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے ہونا چاہئے۔ کراچی‘ لاہور‘ ملتان‘ بہاولپور‘ فیصل آباد‘ ڈیرہ غازی خان‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ سرگودھا‘ بنوں‘ پشاور‘ مردان‘ ایبٹ آباد سمیت بڑے شہروں کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا جائے اور اسی تناسب سے انہیں فنڈز کی فراہمی ممکن بنائی جائے تاکہ بڑے شہروں کے مسائل حل ہوسکیں۔
تمام جماعتیں وسیع ترین قومی مفاد میں بلدیاتی‘ انتخابی‘ انتظامی اور عدالتی نظام میں تبدیلی کے لئے ایک میز پر بیٹھیں اور ایسا مسودہ متفقہ طور پر منظور کریں جس سے نظام تبدیل ہو اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں‘ عوام کو سستا اور فوری انصاف مل سکے اور شفاف ووٹنگ کو ہر صورت یقینی بنایا جانا چاہئے۔ اس کے لئے تمام جماعتیں ساتھ بیٹھ کر ایسا نظام متعارف کرائیں کہ ملک میں شفاف ترین انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوں اور ہارنے والے بھی نتائج کو تسلیم کریں۔
٭....٭....٭