عیشہ پیرزادہ
شاید ٹیکس کا یہ بھاری حجم تاجر طبقے کو ملک سے باہر کی راہ دکھانے لگا ہے۔گزشتہ 20 ماہ کے دوران پاکستانی تاجر اور امرا نہ صرف دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرنے لگے ہیں بلکہ وہاں ایکسپورٹ امپورٹ ٹریڈ ہاؤسز بھی قائم کر رہے ہیں۔پاکستان میں بہت سے بڑے بزنس ٹائیکونز نے اپنا کاروبار جزوی یا مکمل طور پر دبئی منتقل کرلیا ہے جس سے ملک مناسب آمدنی اور ملازمتوں سے محروم ہوتا جارہا ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ روز بروز ٹیکسز میں اضافے سے نا صرف خریدار بلکہ تاجر بھی خاصا پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ گذشتہ کئی ماہ سے ملک کی تاجر برادری وقتا فوقتا ہڑتال کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہے لیکن مسائل کے حل کا کوئی رشتہ نظر نہیں آرہا۔ نئے ٹیکسز،مہنگی بجلی اور تاجر دوست سکیموں نے تاجر طبقے کو کتنا پریشان کر رکھا ہے جاننے کے لیے سینیئر نائب صدر لبرٹی مارکیٹ اور ایسوسی ایٹ ممبر پیاف فائونڈر ایل بی ایف الائنس عمر سلیم سے تاجر طبقے پر چھائی بے یقینی کی صورتحال اور مسائل کے حل پر بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لیجنڈ بزنس کمیونٹی کا سامنے آنا بہت ضروری ہے ان کا بطور قیادت کردارضروری ہے۔جو تاجر تنظیمیں موجود ہیں اور جو تاجر خود کو تاجر نمائندے کہلواتے ہیں ان کی درست شناخت کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ تاجر دوست سکیموں کی بجائے تاجر دشمن سکیمیں متعارف کروا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں ذمہ دار قیادت کا سامنے آنا بہت اہم ہے جو بزنس مین طبقے کے خدشات کو صحیح انداز میں ٹھوس دلائل کے ساتھ گورنمنٹ سے ڈائیلاگ کرے۔اس مرتبہ اگر لاہور چیمبر آف کامرس کی ایسی قیادت آتی ہے جو گورنمنٹ کے سامنے اپنا موقف تو پیش کرے گی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ خیال کرنا بھی ضروری ہوگا کہ گورنمنٹ کو آئی ایم ایف سے متعلق مشکلات درپیش ہیں،ذرمبادلہ کی مشکلات درپیش ہیں۔ لہذا ذرائع آمدن میں اضافے کے لیے مختلف طریقہ کار کو اپنانا بھی ضروری ہوگا۔اس وقت تاجر طبقے کو پڑھی لکھی ،جہاں دیدہ، دیانت دار قیادت کی ضرورت ہے۔ایسی قیادت انٹرنیشنل مارکیٹ میں چیمبر ٹو چیمبر فری ٹریڈ ایگریمنٹس پر کام کر سکتی ہے۔مثلا لاہور چیمبر اگر دلی چیمبر کے ساتھ کسی نہ کسی طرح ایسوسی ایٹ کرے اور لگن کے ساتھ تجارت کو دونوں طرف سے فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھائے تو یقینا موجودہ بے یقینی کی صورتحال میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے۔
خطہ برصغیر کے ممالک سے تجارت پر بات کرتے ہوئے عمر سلیم نے کہا کہ صرف بھارت ہی نہیں بلکہ ہم بنگلہ دیش سے بھی تجارتی مراسم پیدا کرسکتے ہیں۔وہ ہم سے ہی جدا ایک حصہ ہے اور آج بھی وہاں کے لوگوں کے دلوں میں پاکستان کے لیے ایک نرم گوشہ ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت جانے سے وہاں اب ایک نئی حکومت ہے۔ لہذا اس سے کسی نہ کسی طرح فوری طور پر کوآرڈینیشن کی ضرورت ہے۔بنگلہ دیش سے تجارتی مراسم شروع کرنے کے لیے یہ اہم وقت ہے۔ایسی پالیسی بنائی جائے جس پر دونوں ممالک کے حکومتیں سالہا سال قائم رہ سکیں۔چاہے حکومتیں بدلیں لیکن پالیسیز کو کوئی گزند نہ پہنچے۔
آئی ایم ایف سے چھٹکارے کا حل دیتے ہوئے عمر سلیم نے کہا کہ اگر گورنمنٹ صرف دو سال تاجروں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دے تو ہم آئی ایم ایف سے جان چھڑوا سکتے ہیں۔ ہم ٹوٹل قرضہ اپنی ایکسپورٹ سیل سے ہی اتار دیں گے۔مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے تاجر کھل کر کھیل نہیں پا رہے۔ انہیں اس میدان میں ایسے بیوروکریٹس سے واسطہ پڑتا ہے جو کوئی بھی پروجیکٹ کی اجازت دینے سے پہلے اپنا کمیشن مانگتے ہیں کہ اس پروجیکٹ سے ان کا کتنا فائدہ ہوگا۔ پاز مشین، ایڈوانس ٹیکس و دیگر ٹیکسز کی وجہ سے تاجر طبقے کی توجہ کاروبار سے ہٹا دی گئی ہے۔
اگر انہیں کھل کر کام کرنے دیا جائے تو ڈالر اسی ملک میں آئے گا۔فائدہ کسے ہونا ہے؟ ظاہر ہے فائدہ ملک کا ہی ہوگا۔تاجر تنظیموں کے کردار پر بات کرتے ہوئے عمر سلیم نے کہا کہ دراصل تاجر تنظیموں کے درمیان ہی کالی بھیڑیں موجود ہیں جن کا صفایا کرنا ہوگا۔ان کی وجہ سے تاجر دشمن پالیسیز پروان چڑھتی ہیں۔
عمر سلیم کا کہنا تھا کہ اگر کسی گلاس میں پانی بھرنا ہوتو سب سے پہلے اس کا سوراخ بند کیا جاتا ہے۔موثر حکمت عملی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے بیوروکریٹس کا صفایا کریں جو تاجروں سے اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ حکومت ایسے عناصر سے نمٹے۔اس کے علاوہ پالسی میکرز وہ ہوں جن کے پاس اس فیلڈ کا تجربہ ہو تعلیم ہو اور جو تاجروں کے مسائل سے آگاہ ہو، وہی ایسی پالیسی ترتیب دے پائے گا کہ جس سے تاجروں ، عوام اور ملک کا بھلا ہوگا۔
ٹیکس کا بھاری حجم تاجروں کوملک سے باہرکی راہ دکھانے لگا
Sep 21, 2024