قانون سازی و ترمیم طرازی پارلیمنٹ کا ناقابل تنسیخ اختیار ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ آئین میں کی گئی ترامیم اور قانون سازی کی تشریح کا اختیار رکھتی ہے۔سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد دو ایڈہاک کو ملا کر 19 ہے۔ اب اس تعداد کو 23 کیا جا رہا ہے۔ایوان زیریں اور ایوان بالا کے فاضل قانون سازوں کی تعداد ساڑھے چار سو کے قریب ہے۔ان کے تخلیق کردہ قانون اور آئین کی تشریح سپریم کورٹ کے تین جج بھی کر سکتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ بیٹھیں تو ان کی تعداد کل 23 ہو سکتی ہے۔سپریم کورٹ کی فل کورٹ یا تین رکنی بینچ کسی قانون اور ایکٹ آف لاء کو کالعدم بھی قرار دے سکتا ہے۔پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو کسی بھی ادارے اور شہری کی مانند ماننے کی پابند ہے۔
سپریم کورٹ کے 23 محترم ججوں کو ساڑھے چار سو عوام کے منتخب نمائندوں پر فوقیت کیوں ہے؟ پارلیمنٹ کا ہر رکن سیشن کورٹ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی طرح قانون کو سمجھتا اور مہارت رکھتا ہو، اول تو ایسی قانون سازی ہی نہ ہو جس کو کالعدم قرار دینے کی نوبت آئے۔ پھرجسے تشریح کہا جاتا ہے اسے مشاورت کہا جانے لگے گا۔
چند روز قبل ایک فاضل رکن کی جانب سے پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ انتخاب میں حصہ لینے کے لیے گریجویشن کی شرط رکھی جائے۔ اس تجویز کی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مخالفت کی۔ حوالہ دیا کہ مشرف دور میں گریجویشن کی شرط رکھی گئی تو جم غفیر نے جعلی ڈگریاں بنوا کر الیکشن لڑا۔ اسے مافیاز کے سامنے سسٹم کی بے بسی اور ناکامی کہا جاسکتا ہے۔کئی جعل ساز پکڑے بھی گئے تھے۔ کئی لوگوں نے گریجویشن کی شرط پوری کرنے کے لیے باقاعدہ امتحان دے کر ڈگری حاصل کی۔ ان میں بیگم عابدہ حسین بھی شامل تھیں جو کئی مرتبہ وزیر اور امریکہ میں سفیر رہ چکی ہیں۔ایسے لوگوں کو گریجویشن کی ضرورت نہیں ہوتی مگر سارے بغیر ڈگری کے لوگ اتنے قابل اور اہل بھی نہیں ہیں۔آئین میں ترامیم اور قانون کا ڈرافٹ چند ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پارلیمنٹیرین ہی تیار کرتے ہیں۔ کئی اس پر بحث کرتے ہیں۔اکثر پارلیمان میں خاموش دیکھے گئے ہیں۔ وہ حق یا مخالفت میں پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دیتے ہیں۔ پارلیمان میں پڑھے لکھے لوگ جانے چاہئیں۔ اس حوالے سے پارلیمان خود طے کر لے۔ضروری نہیں کہ کل یا اگلے الیکشن میں گریجوایشن کی شرط عائد کر دی جائے۔تعلیم کی پابندی کا قانون آج بنائیں۔ وہ بھلیپانچ 10 یا 15 سال بعد نافذ العمل ہو۔
مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کو خیر و شر، حسن و قبح،اچھائی اور برائی کا امتزاج قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس ترمیم کے مقاصد جو بھی تھے۔تیار کرنے والوں کی نیت کیا تھی؟ ان کے پیش نظر کیا قومی مفاد تھا یا ذاتی غرض تھی ؟ اس پر بحث نہیں کرتے۔ 14 اور 15 ستمبر دو دن اسے منظور کرانے کی سر توڑ کوشش ہوئی۔ اس ترمیم کو جس انداز میں راتوں رات منظور کرانے کی سعی کی گئی یہ کامیاب ہو جاتی تو پہلے ہی عدم استحکام سے دوچار سیاست اور معیشت مزید ہل جاتی۔ مولانا فضل الرحمن کو حکومت نے ان کے ساتھ ہونے والی ابتدائی ملاقاتوں میں ترمیم کا حامی سمجھ لیا مگر ان کے پاس اپوزیشن بھی جا پہنچی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔
سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ کا الیکشن کمیشن کی طرف سے طلب کردہ وضاحت پر وہ فیصلہ نہ آتا جس میں 80 ارکان کو پی ٹی آئی کے ارکان قرار دیا گیا تھا تو حکومت کو مولانا کے آٹھ ووٹوں کی ضرورت نہیں تھی۔ مولانا کے آٹھ ووٹوں کے ہوتے ہوئے بھی مزید چار ووٹ درکار تھے۔جس کا بندوبست حکومت نے کر لیا تھا مگرمولانا فضل الرحمٰن وقتی طور پر آڑے آگئے۔
آئینی مسودے میں کیا تھا ؟حکومت نے اس کی کسی کو بھنک بھی نہ پڑنے دی۔حکومتی اتحادی ایم کیو ایم شکایت کناں ہے کہ حکومت ہمیں ہر صورت ساتھ دینے کی گارنٹی سمجھتی ہے۔ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ 54 شقوں پر مشتمل ترمیم نہایت اہم ہے۔ ان پر طویل بحث کی ضرورت ہے مگر ایک ہی نشست میں منظوری کی کوشش اور خواہش کیوں کر ؟افواہ سازوں نے یہ تک بے سر پیر کی چھوڑنا شروع کر دی کہ مسودہ جیگ برانچ میں تیار ہوا ہے۔مزید الزام لگایا کہ قاضی فائز عیسیٰ اور اٹارنی جنرل عثمان اعوان نے ڈرافٹ تیار کیا ہے۔ اس ترمیم میں جو کچھ ہے وہ تباہ کن ہے۔وزیر قانون سے بیان منسوب کیا گیا کہ مجھے مسودہ مل گیا ہے۔ اس پر مزید شدت سے پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔
مولانا فضل الرحمٰن اور پی ٹی آئی کی طرف سے مجوزہ آئینی ترمیم کی کئی شقوں کی حمایت کی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے کچھ تحفظات سامنے آئے جو دور کر دیئے گئے۔ اب بلاول بھٹو زرداری ترمیم کی منظوری کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔جس طرح ترمیم منظور کرانے کی کوشش کی گئی۔ وہ’’ رات گئی بات گئی‘‘ ہو چکی ہے۔ اب چند ہفتے لگیں یا چند مہینے متفقہ ترمیم ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے۔
مجوزہ آئینی کورٹ کی تشکیل پر کچھ لوگوں کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اس پر آسانی سے اتفاق رائے ہو جائے گا۔ کہا جا رہا تھا کہ اس کورٹ کی حیثیت سپریم کورٹ کے اوپر کی عدالت والی ہوگی۔ ایسا منطقی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے انڈر ہی عدالت یا عدالتیں بن سکتی ہیں۔ فوج کے برابر یا فوج کے اوپر فوج کا کوئی تصور نہیں کر سکتا۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے اوپر سپریم کورٹ بھی نہیں بن سکتی۔ آئینی عدالت کی تشکیل پر اعتراضات زیادہ نہیں ہیں اس کے اختیارات پر تحفظات ہیں جو دور کرنا مشکل نہیں۔ سعید آسی صاحب کی صائب رائے ہے کہ چیف جسٹس کی کمان میں سپریم کورٹ کے دو حصے کر دیئے جائیں۔ ایک حصے کے جج صرف آئینی اور سیاسی مقدمات کی سماعت کریں اور دوسرے حصے کے جج سول اور فوجداری مقدمات میں اپیلوں اور نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کے لیئے مخصوص ہوں۔ ان دوحصوں میں ججوں کی تعداد ضرورت کے مطابق بڑھائی جاسکتی ہے جس سے عدالت عظمیٰ پر عام پبلک کے زیرالتوا مقدمات کا بوجھ نہیں بڑھے گا اور دادے کا کیس پوتا بھگتتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ دو چیف اور سپیریئر کورٹ کی باتیں شرارت ہے۔ایسی کورٹ کو منیر اے ملک ایڈووکیٹ پولٹ بیورو کورٹ کام نام دیتے ہیں۔
سپیکر قومی اور پنجاب اسمبلی کی طرف سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل ناممکن ہے۔ ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کے تحت خصوصی سیٹیں دی جائیں۔سپیکر کے خط پر عمل کے بعد ترمیم کی منظوری کے لیے مولانا فضل الرحمن اور کسی آزاد رکن کی ضرورت نہیں رہے گی۔اتفاق رائے کے بغیر مطلوبہ اکثریت کے بل بوتے پر ترمیم منظور تو ہو جائے گی مگر اس سے نفرتوں، دنگے اور تصادم میں مزید اضافہ ہی ہوگا جو سیاسی و معاشی استحکام کیلئے اور بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔