غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہے آسماں جیسے
پندرہ ستمبر کی شام کچھ یہی منظر تھا ہماری پارلیمنٹ کا، ایوان کی غلام گردشوں میں ایک افراتفری کا عالم تھا ، حکومت اوراسکے پس منظرمیں بیٹھی طاقتیں آئینی ترامیم کے لیے ووٹنگ کی تیاریاں کر رہی تھیں ، گنتی پوری کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا تھا ، حکومت کے ارکان پراعتماد تھے کہ آئین میں ترامیم کے لیے انہوں نے مطلوبہ ارکان کی تعداد پوری کر لی ہے ، ٹی وی اسکرینز پر ہلچل مچی ہوئی تھی، تجزیے تبصرے جاری تھے ، کہا جا رہا تھا کہ پاکستان کے آئین میں چند بنیادی تبدیلیاں پارلیمنٹ کے اجلاس میں کر دی جائیں گی ، مگر یہ ترامیم کیا ہیں یہ کوئی نہیں جانتا تھا ، نہ میڈیا ، نہ اپوزیشن نہ حکومت کے اتحادی ، نہ خود حکومت بلکہ وزیرقانون تک کے پاس ان ترامیم کا مسودہ نہیں تھا اور وہ بھی انتظار کر رہے تھے کہ انہیں مسودہ دیا جائے، جی ہاں پوری دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب آئینی ترامیم منظور ہونے سے چند گھنٹے قبل تک کوئی رکن اسمبلی اور سینیٹر یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کن ترامیم کی منظوری کے لیے ووٹ دینے جا رہا ہے ، ان ترامیم پرپارلیمنٹ میں بحث کرانے کے بجائے اتوار کے روز پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر بڑے ہی مشکوک اور خفیہ انداز میں انیس سو تہتر کے آئین میں بنیادی تبدیلیاں کی جا رہی تھیں۔
اسی دن مجھے معلوم ہوا تھا کہ میری بیٹی اکا تقریری مقابلہ جیت چکی ہے، وہ بہت خوش دکھائی دے رہی تھی لیکن میں سوچ رہی تھی کہ تعلیمی اداروں کے ان مباحثوں اور تقریری مقابلوں کا کیا فائدہ جب عملی زندگی میں ہمارے ہاں بحث اور دلیل کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی گئی۔جہاں ارکان پارلیمنٹ کی حیثیت ایک مہرے بلکہ صرف مہر کی سی ہے ، جس کے زریعے جہاں چاہے ٹھپہ لگا دیا جائے ، یہ تماشا بھی صرف ہمارے ملک میں ممکن ہے جہاں اتنی اہم ترامیم سے نہ صرف عوام کو لاعلم رکھا جائے بلکہ ارکان پارلیمنٹ کو گدھوں اور گھوڑوں کی طرح زور زبردستی جمع کیا جائے اوران سے آئین میں تبدیلی کروائی جائے، ایسا تو شاید بنانا ریپبلک میں بھی نہیں ہوتا ہو گا ،
حکومت جس1973 کے آئین میں خاموشی سے تبدیلیاں کرنے جا رہی تھی ، یہ آئین متفقہ طور پر منظور ہوا تھا ، اس کا مسودہ منظوری سے ایک سال قبل اپوزیشن کو فراہم کیا گیا ، 17اپریل1972 کو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے وزیرقانون عبدالحفیظ پیرزادہ کی سربراہی میں ایک پچیس رکنی آئینی کمیٹی تشکیل دی جس میں پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندے موجود تھے ، دو فروری انیس سو تہتر کو آئین کا مسودہ بحث کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ، اور تین ماہ تک اس پر بحث جاری رہی آخرکار10 اپریل 1973کو پارلیمنٹ نے آئین کی منظوری دی جس پر 137 ارکان نے دستخط کرکے عہد کیا کہ اب پاکستان کا نظام اسی آئین کے تحت چلایا جائے گا۔
اس آئین کی منظوری کے بعد زوالفقارعلی بھٹو نے اپنی تقریر میں کہا کہ قوم کو آئین مل گیا ہے ، یہ آئین عوام کا ہے ، عوام کی ملکیت ہے اور عوام اس آئین کی حفاظت خود کرے گی۔ مگر نہ تو عوام اور نہ ہی آئین کی محافظ سپریم کورٹ اس کی حفاظت کر سکی اور 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاالحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ آئین کی محافظ سپریم کورٹ کے ججوں نے پی سی او پر حلف اٹھا کر آئین کی بجائے جنرل ضیاالحق کی آئین شکنی کو تحفظ فراہم کیا ۔
اور زیادہ دورنہ جائیں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے بعد جب ان سے ہی ڈیل کر کے این آر او کے زریعے پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو 8اپریل 2010 کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر آئین میں اٹھارویں ترمیم منظور کی جس کے حق میں 292ووٹ ڈالے گئے جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا ، اس ترمیم پر آٹھ ماہ مشاورت جاری رہی۔ اس کا مسودہ میڈیا پر زیر بحث رہا اور یہی وجہ ہے کہ اسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا ، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم طویل مشاورت کے بعد منظور کروانے والی پیپلز پارٹی کا چیئرمین بلاول بھٹو آج اسی آئین کو توڑنے مروڑنے میں پیش پیش ہے۔ جے یو آئی ف کے رہنما کامران مرتضیٰ نے جب بلاول بھٹو کی توجہ آئینی ترامیم میں موجود کئی انسانی حقوق کی شقوں کے ردوبدل پر مبذول کروائی تو بلاول بھٹو نے نہ جانے کن مجبوریوں کا رونا رو ڈالا۔ بھلا ہو مولانا فضل الرحمن کا کہ وہ بلاول بھٹو کی طرح مجبوریوں کے عوض آئین کے سودے پر تیار نہ ہوئے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت نے جس طرح بڑے خفیہ انداز میں چوری چھپے رات کی تاریکی میں 1973کے آئین میں ترامیم کی ناکام کوشش کی اسے آئین پر شب خون مارنا ہی سمجھا جا رہا ہے ، اس سے حکومت کو شرمندگی اور رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا، میاں نواز شریف منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ حکومت ابھی بھی چند روز بعد ان ترامیم کی منظوری کے دعوے کر رہی ہے ، پیپلزپارٹی جس کے بانی زوالفقارعلی بھٹو کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے قوم کو ایک متفقہ آئین دیا لیکن آج ان کے نواسے بلاول بھٹو اپنے نانا کے آئین پر شب خون مارنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی جماعت بھی آئین میں ترامیم کے مسودے سے لاعلم تھی ، حکومت کے اپنے سینیٹرز نے جب ترامیم کا مسودہ طلب کیا تو انہیں کہا گیا کہ مسودے سے آپ کا کوئی تعلق نہیں، آپ کا کام چپ چاپ اسکے حق میں ووٹ ڈالنا ہے ، اس پر تین سینیٹرز سخت ناراض ہوئے اور اپنے فون بند کر کے پارلیمنٹ سے غائب ہو گئے، مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کوآخری لمحات میں جب ان ترامیم کا مسودہ دیا گیا تو وہ بھی اس کی تاب نہ لا سکے اور اسے دیکھنے کے بعد خاموشی سے اسلام آباد چھوڑ کر لاہور روانہ ہو گئے۔ نوازشریف کی اس طرح لاہور روانگی سے حکومتی ارکان کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس سارے تماشے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو حکومت پہلے ہی فارم سینتالیس کی نہایت کمزور بیساکھیوں پر کھڑی ہے اسکی ساکھ مزید مجروح ہو چکی ہے اور بعض حلقوں نے الٹی گنتی بھی شروع کر دی ہے۔ طاقتور حلقے اسے حکومت کی بڑی نالائقی قرار دے رہے ہیں۔ عوام اس وقت انتہائی مایوس ہیں۔ ایک جانب معاشی بحران، مہنگائی اور بیروزگاری نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے ، ملک سے بیرونی کمپنیاں کاروبار بند کر کے بھاگ رہی ہیں ، مقامی انڈسٹری کو تالے لگ چکے ہیں تو دوسری طرف حکومت بجائے عوام کی مشکلات کم کرنے کے اداروں کے سربراہوں کی ملازمتوں کو توسیع دینے اور بچے کھچے انسانی حقوق کا گلا گھونٹنے کے لیے آئینی ترامیم کے لیے جوڑ توڑ اور زور زبردستی میں مصروف ہے ،
اگلے چند ماہ اس حکومت کے لیے نہایت نازک اور اہم قرار دیئے جا رہے ہیں اوراب تو اس سارے نظام کو ہی لپیٹ دینے کے خدشات گونجنے لگے ہیں۔ پاکستان میں یہ خدشات بھی نئے نہیں ہیں سات دہایوں کہ سفر میںیہبلا کبھی ٹلی نہیں۔
آئینی ترامیم اور بنانا ریپبلک
Sep 21, 2024