آئین کو متفقہ اور جمہوری آئین قراردیا جاتاہے- اس آئین کی منظوری کے فوراً بعد چند ترامیم کی گئیں جو اس وقت کی منتخب جمہوری حکومت کا استحقاق تھا - جس کے پاس جائز طور پر دو تہائی اکثریت موجود تھی- 1977ء میں آمر جنرل ضیاء الحق نے اس متفقہ جمہوری آئین کو توڑ کر ملک پر مارشل لاء نافذ کر دیا- جنرل ضیاء الحق نے آئین میں آٹھویں ترمیم کر کے اس آئین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے- 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر کے 1973ء کے آئین کو معطل کر دیا اور اس میں سترہویں ترمیم کے ذریعے من پسند آمرانہ ترامیم کر دیں-2010ء میں پی پی پی کے دور حکومت میں آئین کی روح کے مطابق متفقہ طور پر اٹھارہویں ترمیم کر کے 1973ء کے اصل آئین کو بحال کیا گیا- اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے لیے وسیع پیمانے پر مشاورت کی گئی- پارلیمانی کمیٹی میں تمام جماعتوں کے نمائندے شامل تھے جنہوں نے ترمیم کی ہر ایک شق پر بحث مباحثہ کر کے اس کی منظوری دی اور اتفاق رائے ہونے کے بعد اٹھارہویں ترمیم کے پیکج کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور اتفاق رائے سے اس کو منظور کر لیا گیا-فارم 47 کی بنیاد پر تشکیل پانے والی حکومت نے عالمی یوم جمہوریت کے دن اور گزشتہ اتوار کی شب کو آئین اور عدلیہ پر شب خون مارنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی- اراکین پارلیمنٹ کو کئی روز یرغمال رکھا گیا - آئینی ماہرین حیران ہیں کہ خصوصی نشستوں کے حوالے سے ابھی تک سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا لہذا متنازعہ اور نامکمل ایوان آئین میں ترامیم کیسے کر سکتا ہے- کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اس خفیہ اور پراسرار آئینی پیکج کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور مطالبہ کیا کہ آئینی ترامیم کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جائے-الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں کے فیصلے پر عمل درامد کرنے کی بجائے سپریم کورٹ میں وضاحت کے لیے ایک درخواست دائر کر دی جو زیر التواء تھی- آٹھ ججوں نے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کرنے کے لیے حکومتی سرگرمیوں کو بھانپتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست کو تاخیری حربہ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے لیے عدالتی حکم پر عمل درامد نہ کرنے کے سنگین نتائج ہوں گے-سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں کی اس وضاحت کے بعد حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی- اسلام آباد میں تحریک انصاف کے پرجوش اور کامیاب جلسے اور علی امین گنڈاپور کی کھلی دھمکیوں سے وفاق اور پنجاب کے حکمران دباؤ میں آ چکے تھے-وفاقی حکومت خوف زدہ اور لرزاں ہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی کے بعد جسٹس منصور علی شاہ پاکستان کے نئے چیف جسٹس نامزد ہو کر حکومت کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں-اس ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے سیاسی ڈرامہ رچایا گیا-وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ مجوزہ وفاقی آئینی کورٹ کے ججوںکی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کر دی جائے تاکہ قاضی فائز عیسی کو ریٹائر منٹ کے بعد وفاقی آئینی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد کیا جا سکے - ایک تجویز یہ بھی تھی کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر ارسٹھ سال کردی جائے تاکہ قاضی فائز عیسیٰ مزید تین سال کے لیے اپنے منصب پر فائز رہ سکیں - حکومت چاہتی ہے کہ اسے ہائی کورٹس کے ججوں کو ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں ٹرانسفر کرنے کے اختیارات بھی حاصل ہو جائیں- مخصوص نشستوں پر غیر قانونی اور قبضے کے باوجود حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت موجود نہیں ہے- آئین اور عدلیہ پر شب خون مارنے کی واردات کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمن کے پانچ سینیٹرز اور آٹھ اراکین اسمبلی کی اشد ضرورت ہے -اس کے علاوہ حکومت نمبر پورے کرنے کے لیے تحریک انصاف کے 8 سے 10 اراکین اسمبلی کو توڑنے کی کوشش بھی کر رہی ہے- سپیکر قومی اسمبلی نے خصوصی نشستوں کے سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر کے نام خط لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی بجائے پارلیمان کے نئے ایکٹ کے مطابق فیصلہ کیا جائے-یہ خدائی قانون ہے کہ اگر نیت بد ہو تو اس میں اللہ کی برکت شامل نہیں ہو سکتی -
حکومت نے آخری وقت تک اپنے آئینی پیکج کو خفیہ رکھا جس سے اس کی بد نیتی کھل کر سامنے آ جاتی ہے-جب اس آئینی پیکج کی خبریں منظر عام پر آنے لگیں تو سینیئر وکلا میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی-پاکستان کے جن سینئر وکلا نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے دوران ان کی کھل کر حمایت کی تھی انہوں نے بھی دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ چیف جسٹس عزت اور آبرو کے ساتھ اپنی مدت پوری کر لیں-وکلا کے مقبول لیڈر بیرسٹر حامد خان نے عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے ملک گیر تحریک چلانے کی دھمکی دے دی- انہوں نے کہا کہ وکلاء برادری سپریم کورٹ کے متوازی اور کوئی کورٹ نہیں بننے دے گی- حکمرانوں کو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وکلاء کی لاشوں پر سے گزرنا پڑے گا - انہوں نے کہا کہ انڈین سپریم کورٹ کی طرح سپریم کورٹ کے پانچ سینیئر ججوں پر مشتمل مستقل آئینی بینچ تشکیل دے کر زیر التواء سول اور فوجداری مقدمات کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے-جیل کے قیدی نمبر 804 عمران خان جو کسی بھی قیمت پر نہ جھکنے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں انہوں نے پورے پاکستان کی سڑکوں پر عوامی احتجاج کرنے کا اعلان کردیا ہے - حکومت کے مجوزہ آئینی پیکج میں صرف آئینی کورٹ پر اتفاق رائے سامنے آیا ہے- جس کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی اور آئینی ایشوز کے لیے ایک علیحدہ کورٹ تشکیل دی جائے تاکہ عوام کے مقدمات تاخیر کا شکار نہ ہوں-اس کے علاوہ حکومت کے آئینی پیکج میں ایک بھی ترمیم ایسی نہیں ہے جو عوام کے مفاد میں کی جا رہی ہو- تمام ترامیم کا مقصد یہ ہے کہ حکومتی اتھارٹی کو مضبوط کیا جائے اور ریاستی اداروں کو کمزور کیا جائے تاکہ حکمران آزادی کے ساتھ من مانی کارروائیاں کر سکیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہ ہو-سنیارٹی کی بنیاد پر نامزد ہونے والا چیف جسٹس کا نظام خوش اسلوبی کے ساتھ چل رہا ہے-حکومت کے آئینی پیکج میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ جس طرح آرمی چیف کو وزیراعظم ایک پینل سے منتخب کرتے ہیں اسی طرح چیف جسٹس کو بھی پینل سسٹم پر نامزد کیا جائے-پینل سسٹم بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے کیونکہ اس میں میرٹ کی بجائے ذاتی وفاداری کو ترجیح دی جاتی ہے - جس سے قومی اور عوامی مفادات متاثر ہوتے ہیں-حکومت کی آئین اور عدلیہ پر شب خون مارنے کی واردات کامیاب نہیں ہو سکی اگر ہو بھی جاتی تو سپریم کورٹ اسے بنیادی آئینی ڈھانچے کے خلاف قرار دے کر کالعدم قرار دے دیتی- مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ ریاست کے بنیادی ستون ہیں ان کے اختیارات کو غصب نہیں کیا جاسکتا - تاریخ گواہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ سے عاری حکومتیں کبھی سیاسی معاشی اور انتظامی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتیں- خیبر سے کیماڑی تک عوام کے غصے اور نفرت میں روز بروز تشویش ناک اور اذیت ناک حد تک اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے-حکمرانوں کے علاوہ ریاست کے مقتدر اداروں کو اس کا مکمل ادراک ہے اور وہ دن دور نہیں جب عوامی غصے اور نفرت کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے- اراکین سینٹ و قومی اسمبلی اگر ذاتی گروہی اور سیاسی مفادات کے اسیر نہ ہوں تو وہ پاکستان کے سیاسی و جمہوری نظام سے سرمائے کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے، متناسب نمائندگی کے اصول پر انتخابات کرانے اور مقامی حکومتوں کو صوبائی حکومتوں کی طرح آئینی تحفظ دینے کے لیے آئین میں ترامیم لائیں تاکہ پاکستان کے عوام مقتدر ہو سکیں اور پارلیمانی نظام میں عوام کی با معنی شرکت بلکہ بالادستی کو یقینی بنایا جا سکے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں مختلف انداز میں عوام کی بالادستی کے لیے جدوجہد شروع ہو چکی ہے جو بالاخر کامیابی سے ہمکنار ہوگی- بقول اقبال
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمین میر و سلطاں سے بیزار ہے
٭…٭…٭