ہفتہ‘16 ربیع الاول 1446ھ ‘ 21 ستمبر 2024ء

Sep 21, 2024

آئینی ترامیم ہو جاتیں تو مارشل لاء لگ جاتا، عمر ایوب۔
 کیا ترامیم مارشل لگانے کے لیے کی جا رہی تھیں؟ مارشل لاء لگانے کے لیے کیا ایسی ترامیم یا کسی بھی طرح کی ترامیم اور قانون سازی  کی ضرورت ہوتی ہے؟مارشل لا تو بس ایسے ہی چلتے چلتے اٹھتے بیٹھتے لگ جاتا ہے۔ بعض اوقات تو کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا۔ عمر ایوب جن ترامیم کی بات کر رہے ہیں شروع میں یہ منہ زبانی متعارف کرائی گئیں۔ اس کی منظوری کے لیے صبح سے آدھی رات تک فاضل ارکان پارلیمنٹ اپنے اپنے ایوانوں میں تشریف فرما رہے۔ پھر ایوان بالا اور ایوان زیریں کے اجلاس ملتوی ہو کر 16 ستمبر پیر کے روز پر چلے گئے۔ اس کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئے۔ حکومت اور اتحادی پارٹیاں اس ترمیم کی جتنی قوت سے حامی تھیں اپوزیشن اتنی ہی شدت سے مخالف تھی۔ مولانا فضل الرحمن پر حکومت کا بھروسہ اور اعتماد دو چند تھا۔ دو چار ووٹوں کی کمی تھی وہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد معزز ارکان نے بے پایاں خواہش کیساتھ''یرغمال بالرضا " بن کر پوری کر دی۔ مولانا نے ووٹنگ سے عین قبل مزید وقت مانگ لیا لہذا ترمیم ہوتے ہوتے مؤخر ہو گئی۔ عمرایوب مزید کہتے ہیں کہ حکومت اور اتحادی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اس پر جواب آں غزل تو نہیں آیا مگر خاموشی بھی اختیار نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شازیہ مری نیطعنہ و طنز کے تیر برساتے ہوئے کہا کہ جنرل ایوب کا پوتا پیپلز پارٹی کو جمہوریت اور اقدار نہ سکھائے۔ مارشل لاء کے خواب دیکھنے والے شکست خوردہ ہیں۔ویسے جب اقتدار کے انگور کھٹے ہو جائیں تو کئی سیاست دانوں کے اندر مارشل لا کی خواہش مچلنے لگتی ہے۔ ہم نہیں تو اقتدار میں حریف بھی کیوں ہوں۔ حریف بھی وہ جو ماضی کی اینٹ کے جواب میں آج پتھر اٹھائے ہوئے ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ بہت کچھ بدلتا رہتا ہے۔عمر ایوب کے والد گوہر ایوب خان مسلم لیگ نون کے فیصلہ ساز لیڈر ہوا کرتے تھے۔وزیر خارجہ اور سپیکر قومی اسمبلی رہے۔ عمر ایوب ان دنوں، ساڈا میاں آوے ای آوے کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ آج کل تہاڈا میاں جاوے ای جاوے کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔شازیہ مری کی پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے قریبی ساتھی اور وزیر خارجہ تھے۔ ایوب خان کو بھٹو صاحب ڈیڈی بھی کہا کرتے تھے۔بھٹو گوہر ایوب بھائی بھائی۔وقت وقت کی بات ہے۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ کل شازیہ مری اور عمر ایوب ہو سکتا ہے ایک پلیٹ فارم پر سیاست کر رہے ہوں۔ پاکستان میں کبھی کہا جاتا تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی سکتے ہیں آگ اور پانی مل سکتے ہیں۔ہمالیہ اپنی جگہ بدل سکتا ہے۔ مچھلیاں تو درختوں پر چڑھ سکتی ہیں مگر نواز شریف اور بے نظیر  اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے۔ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان ہاتھ نہیں ملا سکتے۔مگر  چشمِ فلک ایسا نظارہ دیکھ رہی ہے۔
٭…٭…٭
مولانا طارق جمیل نے بال لگوا لیے۔
 کچھ لوگ کہتے ہیں مولانا کو کیا ضرورت تھی ہیئر ٹرانسپلانٹ کرانے کی؟ باقی جو لوگ کراتے ہیں جو ان کو ہے وہی مولانا کو بھی ضرورت پڑ گئی۔ ویسے مولانا کو ننگے سر کم ہی لوگوں نے دیکھا ہے۔ بال کچھ لوگ خوبرو نظر آنے کے لیے لگواتے ہیں۔ کچھ پرسنلٹی رعب دار بنانے کے لیے بال لگواتے ہیں اور کچھ کو بالوں کی اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ طارق عزیز کی طرح بالوں میں ہاتھ پھیر سکیں۔کوئی جوئیں پالنے کے لیے تو بال نہیں بڑھاتا یا لگواتا۔ مولانا کی بال لگوانے کی تصویر کے ساتھ ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں ڈاکٹر پروسیس کر رہا ہے۔ ساتھ خوش گپیاں بھی ہو رہی ہیں۔ مولانا بڑے خوش نظر آرہے ہیں۔ مولانا خود بھی میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ سپیشلائزیشن کرتے تو شاید اسی شعبہ میں کر کے ماہانہ بڑی رقم کماتے۔ ان کی آمدن اب بھی معقول ہے۔ڈاکٹر باربر کو سو روپے کا نوٹ ان کی طرف سے دیا گیا۔ وہ شاید آٹوگراف کی صورت میں گفٹ دیا گیا ہو۔ ایسے بال پاکستان میں دو ڈھائی لاکھ روپے میں کاشت کئے جاتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل نے جہاں سے بال لگوائے ان کی معروف شخصیت کی بدولت وہاں ٹرانسپلانٹ کرانے والوں کی دہری تہری لائنیں لگیں گی۔اس دکان والے نے مولانا کو کتنی ادائیگی کی ہوگی اور کس طرح حضرت صاحب کو بال لگوانے پر آمادہ کیا ہوگا؟ یہ اندر کی بات ہے انتظار کریں کب باہر آتی ہے۔
٭…٭…٭
رکشہ ڈرائیور کی سیٹ پر بچوں کو بٹھانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
پابندی شاید بچوں کی حفاظت اور گرنے سے محفوظ رکھنے کے لیے عائد کی گئی۔ بڑے رکشہ ڈرائیور کے دائیں بائیں بیٹھ سکتے ہیں بلکہ سواریاں زیادہ ہوں تو رکشہ ڈرائیور کی سیٹ پر بھی ایک سواری بٹھائی جا سکتی ہے۔ ڈرائیور رکشے کے پیچھے لٹک کر سفر کرے۔ سی ٹی او کے آرڈر میں رکشے کی سائیڈوں پر بچوں کے بیگ لٹکانے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ پک اپ میں ڈرائیور کے ساتھ ایک سواری ہی بیٹھ سکتی ہے۔ دو بیٹھیں تو چالان ہوگا۔ ایسی پابندیوں کا اعلان اب کیا گیا ہے۔ اس سے قبل  ایسا سب کچھ کرنے کی اجازت تھی۔ رکشوں کے ڈرائیوروں کو آج پتہ چلا ہے کہ رکشے کے آگے بڑے بیٹھ سکتے تھے۔ بچے اپنے بیگ رکشے کے تین طرف لٹکا سکتے تھے۔جن کے ایسے’’جرائم‘‘ میں چالان ہو چکے ہیں وہ ریکوری کی درخواست دے کر ہزاروں روپے سیل ٹیکس کی طرح ری فنڈ کرا لیں۔ ہماری پولیس ایکشن میں آتی ہے تو ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹر سائیکلسٹس کا چالان کرنے لگ پڑتی ہے۔ گاڑی چلاتے ہوئے سیٹ بیلٹ نہ لگانے پر نہ پوچھیں تو برسوں نہ پوچھیں۔ پوچھنے پر آئیں تو دن میں ہزاروں چالان پھڑکا ڈالیں۔ انتظامیہ کے کیا کہنے۔ تجاوزات پر ہٹ ہٹ کے پابندی لگا دی جاتی ہے۔ رات دس بجے کاروبار بند کرنے کی پابندی ہے۔ کب لگی؟ کب اٹھی؟ اٹھی نہیں مگر کاروبار نان سٹاپ  چلتے ہیں۔ چوکوں پر بھکاریوں کے مانگنے پر پابندی ہے مگر منگتے چھپ جانے والی ٹوپی پہن کر مانگتے ہیں۔ پلاسٹک شاپنگ بیگ کے استعمال پر پابندی لگائی گئی تھی۔ یہ شاید تین گھنٹے کی تھی۔ ان تین گھنٹوں میں پابندی پر سختی سے عمل کرایا گیا اور پھر پابندی اپنے آپ اٹھ گئی۔
٭…٭…٭
مودی پر تنقید کی وجہ سے مالدیب کے معطل دو وزیر مستعفی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے جزائر لکشدیپ کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر اس سیاحتی جزیرے کی تصاویر شیئر کی تھیں۔ لکشدیپ پر مالدیب کا دعویٰ ہے جبکہ یہ جزیرہ تقسیم ہند کے اصول کے تحت پاکستان کا حصہ ہے۔ جو کشمیر کی طرح آج بھارت کے زیر تسلط ہے۔ مالدیب کے صدر معیزو کو اقتدار میں آئے ابھی ایک سال نہیں ہوا۔ انہوں نے انتخابی مہم میں انڈیا آؤٹ کا نعرہ لگایا اوربھارتی فوج کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ صدر بننے کے بعد معیزو صاحب اپنے اس نعرے اور مطالبے کے اوپر کمبل بچھا کر سو گئے۔ مودی لکشدیپ آئے تو تین وزرا مریم شعونہ، مالسا شریف اور محذوم ماجد نے کتھارسس کرتے ہوئے مودی صاحب کو مسخرہ، دہشت گرد اور اسرائیل کی کٹھ پتلی قرار دے دیا۔ اس پر بھارت نے شدید اعتراض اور احتجاج کیا۔ آنکھیں بھی دکھائیں تو معیزو کا تراہ نکل گیا۔ انہوں نے ’’توہین مودی‘‘ کے الزام کے تحت جنوری میں تینوں وزرا کو معطل کر دیا۔ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔ اب مالدیب کے دلیر صدر نے بھارت کا دورہ کرنا ہے تو دو معطل وزرا سے استعفے لے لئے گئے۔ جبکہ محذوم ماجد نے ٹھینگا دکھادیا ہے۔ کل کلاں ہو سکتا ہے وہ بھی استعفیٰ دینے والوں میں شامل ہو جائیں۔ کہا تو گیا ہے کہ ان وزراء نے وزیر اعظم کی توہین کی ہے مگر اصل بات بھارت سرکار کا راز فاش کرنا ہے۔ جو توہین سے زیادہ سنگین جرم ہے اور راز مودی کا مسخرہ کٹھ پتلی اور دہشت گرد ہونا ہے۔ یہ بھارت کا ٹاپ سیکرٹ تھا۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں