لاہور میں منعقدہ وکلاء کنونشن کا اعلامیہ جاری کردیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ وکلاء آئینی عدالت کے قیام کو مسترد کرتے ہیں، سپریم کورٹ میں سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس تعینات کیا جائے، جسٹس سید منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے، نام نہاد آئینی پیکیج کو سختی سے مسترد کرتے ہیں، قومی اسمبلی کے پاس ترامیم پیش کرنے کا اختیار نہیں ہے، آئینی پیکیج آئین کے خلاف ہے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے، سمجھوتہ کرنے والے وکلاء اور ان کی کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں، کنونشن ہال میں گو قاضی گو کے نعرے لگوائے گئے۔ ادھر، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں بہتری لانی ہے تو آئینی عدالتوں کا قیام ضروری ہے۔ اسلام آباد میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وکلاء نے ہر آمریت کے دور میں اس کے خلاف صف اول کا کردار ادا کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت سے سیاست کی امید رکھیں گے تو جمہوریت اور عوام کو نقصان ہوگا۔ چوری، قتل کے مقدمے میں کیا لوگوں کو 50/50 سال کا انتظار کرنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ میں 50 فیصد کیس آئینی ہوتے ہیں جنھیں 90 فیصد وقت ملتا ہے۔ حکومت اور اتحادیوں سے مشورہ کر کے ایسی عدالت بنائیں گے جہاں ڈیم نہ بنائے جائیں یا ٹماٹر کی قیمتیں نہ طے ہوں۔ لاہور کے وکلاء کنونشن میں سنیارٹی کے جس اصول کی بات کی گئی وہ درست ہے، اس اصول کو برقرار رہنا چاہیے، ججوں کی تعیناتی میرٹ پر ہوگی تو اس موضوع پر کسی کو سیاست کرنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ کسی کی پسند نا پسند کی بجائے میرٹ کو مد نظر رکھا جائے۔ موجودہ حالات میں آئینی عدالت کی ضرورت ہے تاکہ آئینی اور عام سائلین کے مقدمات بروقت نمٹائے جاسکیں۔ بہتر ہے کہ ایک ہی چیف جسٹس کے ماتحت سپریم کورٹ کے دو حصے کر لیے جائیں۔ ججوں کی ایک مخصوص تعداد آئینی مقدمات کو دیکھے اور باقی جج عام مقدمات نمٹائیں۔