سپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق اور سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی 67 مخصوص نشستیں متعلقہ پارلیمانی جماعتوں کو دوبارہ الاٹ کرنے کا تقاضا کر دیا ہے جو مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ کے اکثریتی فیصلہ کی بنیاد پر ان جماعتوں سے لے کر پی ٹی آئی کو الاٹ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں قومی اور پنجاب اسمبلی کے سپیکروں کی جانب سے پاکستان الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے الگ الگ مراسلوں میں یہ یکساں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 8 فروری کے اتخابات میں آزاد حیثیت میں منتخب ہونیوالے جن ارکان نے الیکشن ایکٹ کے تقاضے کے تحت متعلقہ میعاد کے اندر اندر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی تھی‘ وہ اب اسی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں اور آئین کی دفعہ 63۔اے کے تحت وہ اب اپنی پارلیمانی پارٹی تبدیل نہیں کر سکتے جبکہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں یہ نشستیں دوسری جماعتوں کو انکی حاصل کردہ عام نشستوں کے تناسب سے الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیکر پی ٹی آئی کی پالیمانی پارٹی کو الاٹ کرنے کا حکم دیا۔ فاضل سپیکروں کے مراسلات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس وقت پارلیمنٹ سے ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ نافذ ہو چکا ہے جس کا 2017ء کے موثر بہ ماضی اطلاق ہوگا۔ اس لئے اس ایکٹ کی بنیاد پر مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو الاٹ کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے والا آزاد رکن اب پارٹی تبدیل نہیں کر سکتا۔ سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے مراسلہ میں پارلیمانی بالادستی و خودمختاری کا سوال بھی اٹھایا ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کے مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں اپنے 12 جولائی کے حکم میں آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے ارکان اسمبلی کو ایک مخصوص سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا حکم دیا ہے جبکہ وہ پہلے ہی سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں اور اسکی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں اور سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد الیکشن ایکٹ میں ترمیم بھی ہو چکی ہے جس کی رو سے ایک پارٹی میں شامل ہونے والے ارکان اپنی پارٹی تبدیل نہیں کر سکتے۔ اور ایسا کرنے والے ارکان آئین کی دفعہ 63۔اے کی زد میں آکر اپنی رکنیت سے محروم بھی ہو سکتے ہیں۔ چونکہ الیکشن ایکٹ کی یہ ترمیم موثر بہ ماضی ہے اس لئے یہ سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلہ سے پہلے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے آزاد ارکان پر بھی لاگو ہوگی‘ ان مراسلات کی کاپیاں چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ کمیشن کے تمام ارکان کو بھی بھجوائی گئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کی قانون سازی کا احترام کرے اور اسمبلی کی خودمختاری برقرار رکھتے ہوئے مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرے۔
الیکشن ایکٹ میں اس بارے میں تو پہلے بھی کوئی ابہام نہیں تھا کہ اسمبلیوں میں آزاد حیثیت سے منتخب ہونیوالے ارکان کو انکی رکنیت کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری ہونے سے پہلے پہلے کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے یا آزاد حیثیت برقرار رکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اگر وہ متعلقہ اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے تک کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوتے تو انہیں ہائوس میں آزاد رکن کی حیثیت سے نشستیں الاٹ ہوتی ہیں۔ یہ امر واقع ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے منتخب ہونیوالے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی اکثریت نے متعلقہ میعاد کے اندر اندر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی اور اسکی پارلیمانی پارٹی کا حصہ بن گئے تاہم سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی دائر کردہ درخواست اور متعدد دوسری درخواستوں میں اپنے اکثریتی فیصلہ کے تحت الیکشن ایکٹ اور آئین کی دفعہ 63۔اے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ان ارکان کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا دوبارہ موقع دے دیا اور اسی تناسب سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی پی ٹی آئی کو الاٹ کرنے کے احکام صادر کر دیئے۔ آئینی اور قانونی حلقوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ کو اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ پی ٹی آئی کی درخواست میں تو سنی اتحاد کونسل کا حصہ بننے والے آزاد ارکان کو پی ٹی آئی کا حصہ بنانے کی کوئی استدعا بھی نہیں کی گئی تھی جبکہ سپریم کورٹ نے اسے بن مانگے یہ نشستیں الاٹ کرنے کے احکام صادر کر دیئے۔ آئینی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ کو بھی جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اس فیصلہ جیسا ہی قرار دیا گیا جس کے تحت آئین کی دفعہ 63 کی متعلقہ شقوں کی تشریح کرتے ہوئے کسی رکن اسمبلی کو اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلہ کے خلاف ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ اسے اپنی جانب سے آئین میں خود ترامیم کرنے سے تعبیر کیا گیا۔ بادی النظر میں ایسی ہی صورتحال مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلہ میں بھی جھلکتی ہوئی نظر آئی اور مزید قباحت یہ پیدا ہوگئی کہ متذکرہ کیس کا مختصر فیصلہ سنانے کے بعد متعلقہ فاضل ججز موسم گرما کی تعطیلات پر چلے گئے‘ نتیجتاً اب تک اس کیس کے نہ مفصل فیصلہ صادر ہونے کی نوبت آئی اور نہ ہی اس فیصلہ کیخلاف حکومت اور الیکشن کمیشن کی دائر کردہ نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت ہو پائی ہے۔ چنانچہ الیکشن کمیشن بھی متعلقہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو الاٹ کرنے سے متعلق اکثریتی فیصلہ پر اب تک مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کرپایا جبکہ اب قومی اور پنجاب اسمبلی کے سپیکروں کے مراسلات سے ممکنہ طور پر الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کے معاملہ میں مزید قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور ادارہ جاتی ٹکرائو کی فضا پھر گرم ہوگی۔ اس ممکنہ ٹکرائو میں لازمی طور پر پارلیمنٹ بھی فریق ہوگی چنانچہ پہلے ہی لرزہ براندام جمہوری نظام مزید خطرات کی زد میں آسکتا ہے۔
بدقسمتی سے گزشتہ بالخصوص چھ سات سال کے دوران سیاست میں جس سرعت کے ساتھ بلیم گیم اور ذاتیات کی حد تک پہنچنے والی سیاسی محاذآرائی کو فروغ حاصل ہوا ہے‘ اس نے ریاستی‘ انتظامی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس میں ہر ادارے کی جانب سے اپنا ’’شملہ‘‘ اونچا رکھنے کی کوشش اور انا پرستیوں نے معاملات سلجھانے کے بجائے مزید بگاڑ دیئے ہیں۔ جسٹس بندیال کے دور تک کی سپریم کورٹ میں بھی اسکے بعض فیصلوں کی بنیاد پر ریاستی انتظامی اداروں میں ٹکرائو کی افسوسناک صورتحال پیدا ہوتی نظر آتی رہی اور پنجاب کی توڑی گئی اسمبلی کے آئینی میعاد کے اندر انتخابات کیلئے سپریم کورٹ کا فیصلہ کہیں فضائوں میں ہی تحلیل ہو گیا جسے بالآخر جسٹس بندیال نے آنیوالی تاریخ پر چھوڑ دیا۔ اب مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلہ پر عملدرآمد کے معاملہ میں بھی ویسی ہی ادارہ جاتی کشیدگی کی فضا جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کی جانب لے جاتی نظر آرہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج سید منصورعلی شاہ ایک کیس کی سماعت کے دوران اور امریکہ میں قانون دانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ ریمارکس بھی دے چکے ہیں کہ حکومت کو مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر من و عن عمل کرنا یا نتائج بھگتنا ہونگے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے باعث چونکہ پارلیمنٹ میں حکومتی اتحادیوں کی دو تہائی اکثریت ختم ہو چکی ہے اور وہ اپنی مرضی کی کوئی آئینی ترمیم منظور کرانے کی پوزیشن میں نہیں اس لئے اس ایشو کو حکومت اور پارلیمنٹ بھی اپنی انا کا مسئلہ بنائے گی تو اس تنائو اور کشیدگی کا سارا ملبہ سسٹم پر ہی گرے گا۔ اگر اس ٹکراؤ کے معاملہ میں کسی کی نیت ہی جمہوریت کو ڈی ٹریک کرانے کی ہے تو یہ ان کا اپنا معاملہ ہے البتہ جمہوریت کی عملداری اور سسٹم کے استحکام کیلئے فکرمند تمام قومی سیاسی اور دینی قیادتوں کیلئے موجودہ صورت حال مزید فکرمندی کی متقاضی ہے کیونکہ جمہوریت کے ڈی ٹریک ہونے سے ان کا اپنا سیاسی مستقبل ہی نہیں‘ ملک کا مستقبل بھی تاریک ہو سکتا ہے۔