پاکستان میں جو طرز سیاست فروغ پا چکا ہے اور جس شدت کے ساتھ پھیل رہا ہے یہ معاشرے کو اخلاقی طور پر بڑی تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ویسے تو ہم اخلاقی طور پر پہلے ہی کافی پست ہو چکے ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سفر تیزی سے جاری ہے۔ دنیا میں قومیں ترقی کے لیے محنت کرتی ہیں، وسائل خرچ کیے جاتے ہیں، وقت صرف ہوتا ہے، لوگ مل بیٹھتے ہیں، ترقی کے لیے نئی نئی چیزیں دریافت کرتے ہیں، تخلیق کرتے ہیں اور ہم یہاں یہ سارے کام اپنی تباہی کے لیے کر رہے ہیں۔ کسی نے باہر سے آ کر ہمیں کیا نقصان پہنچانا ہے اس کام کے لیے ہم خود ہی کافی ہیں۔ بلکہ ہم تو تباہی کے عمل میں اس حد تک مہارت حاصل کر چکے ہیں کہ اگر دنیا میں کوئی تباہی چاہتا ہے تو ہم اس کی بھرپور مدد کر سکتے ہیں۔ سیاسی قیادت اس میں پیش پیش ہے۔ پارلیمنٹ جہاں سے مسائل حل ہونے ہیں اس جگہ سے بڑے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ سیاسی قیادت پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہے۔ کبھی قانون سازی کے نام پر، کبھی ملک میں سیاسی سرگرمیوں کے نام پر، کبھی اختیارات کے ناجائز استعمال کے نام پر، کبھی حدود سے تجاوز کے نام پر، کبھی سیاسی گرفتاریوں کے نام پر، روز شور مچایا جاتا ہے، طعنے دئیے جاتے ہیں، نامناسب الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس سے نکلنے کے بعد یہ لوگ ملک کے مختلف ٹیلیویژن چینلز کا رخ کرتے ہیں پھر وہاں سے بدتہذیبی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ ٹاک شوز کے آٹھ دس گھنٹے، مارننگ شوز کے دو گھنٹے، نیوز میں سیاست دانوں کی غیر منطقی گفتگو اور پھر اس پر صبح دوپہر شام کی پریس کانفرنسوں نے جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ سیاسی قیادت یہ سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ وہ ٹیلیویژن پر جو گفتگو کر رہی ہے اس سے کیا پیغام پھیل رہا ہے۔ اسی طرح ان دنوں پاکستان تحریک انصاف کے جلسے ہیں۔ گذشتہ روز میں نے کئی ٹیلیویژن پروگرام سنے دیکھے جس لب و لہجے میں ملک کے نمایاں چینلز پر ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کی نمایاں شخصیات بات کرتی ہیں وہ سن کر لگتا ہے کہ شاید لوگوں میں ٹیلیویژن پر بات کرتے اور دوستوں میں یا بند کمرے میں بیٹھ کر بات کرنے کا فرق ختم
ہو چکا ہے۔ یہ کسی بڑی تباہی سے ہرگز کم نہیں ہے۔ کیا سیاسی قیادت کا مقصد ہر حال میں اقتدار حاصل کرنا ہے یا اخلاقی تعمیر بھی کسی کی ذمہ داری ہے یا نہیں۔
اب پاکستان تحریک انصاف پھر جلسہ کرنے جا رہی ہے۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں ہونے والے جلسے سے جتنی نفرت پھیلی ہے اس کے اثرات دیر تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ ان جلسوں جلوسوں نے عام آدمی کا جوس نکال کر رکھ دیا ہے۔ باہر نکل کر پوچھیں کہ عام آدمی کا کیا حال ہے وہ کس کرب سے گذر رہا ہے، کبھی ایک شہر میں کنٹینر، کبھی دوسرے شہر میں کنٹینر، ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ کس حیثیت میں اپنی سیاسی جماعت کے جلسے کی میٹنگز سرکاری عمارت میں، سرکاری خرچے پر کر سکتا ہے، کوئی بھی وزیر اعلیٰ کیسے حکومت کے خلاف جلسے کے لیے سرکاری مشینری استعمال کر سکتا ہے، کیا یہ اختیارات سے تجاوز کا کیس نہیں ہے۔ یہ کون سی جمہوریت ہے۔ عجب صورت حال ہے۔ آج لاہور کا کیا حال ہو گا اس بارے اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کو کاہنہ میں رنگ روڈ پر جلسے کی اجازت دے دی۔ ضلعی انتظامیہ نے تینتالیس شرائط و ضوابط کے ساتھ پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت دی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو آٹھ ستمبر کے جلسے میں سخت زبان پر معافی مانگنا ہوگی۔ یاد رہے کہ جلسے کی سکیورٹی منتظمین کے ذمے ہے۔ پی ٹی آئی رہنما اشتیاق اے خان کا کہنا تھاکہ ہم علی امین کی طرف سے ذمہ داری نہیں لے سکتے ہیں وہ کوئی معافی مانگیں، ان کی اپنی مرضی ہے۔
پی ٹی آئی نے جس انداز میں سیاسی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں کیا اس عمل سے ملک میں استحکام ہو سکتا ہے یقینا نہیں کیا یہ مسائل کا حل ہے یقینا نہیں ہے، کیا یہ سیاسی حکومت گرانے کا واحد حل ہے یقینا نہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کی سرپرستی میں ہونے والی یہ سیاسی سرگرمیاں ملک میں نفرت اور انتشار کا باعث ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بالخصوص افغانستان کے معاملے میں خیبر پختونخوا حکومت نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ کسی بھی طور ملکی مفادات کا تحفظ نہیں کرتا۔ قومی ترانے کی بے حرمتی کے بعد تو یہ واضح ہو چکا کہ افغان حکومت کسی کے اشاروں پر چل رہی ہے اور علی امین گنڈا پور کسی کے اشاروں پر ہیں یہ بھی پتہ چل ہی جائے گا۔ کیونکہ سیاسی اختلافات میں اس حد تک آگے جانا کہ ملکی مفاد کو خاطر میں ہی نہ لایا جائے یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ دعا ہے کہ آج کا دن خیریت سے گذرے، ملک میں مختلف حصوں میں خارجی دہشتگردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اللہ میرے ملک کی حفاظت کرنے والوں کی حفاظت فرمائے۔
آخر میں امجد اسلام امجد کا کلام
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی، ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
دوست دار لہجوں میں سلوٹیں سی پڑتی ہیں
اک ذرا سی رنجش سے
شک کی زرد ٹہنی پر پھول بدگمانی کے
اس طرح سے کھلتے ہیں
زندگی سے پیارے بھی
اجنبی سے لگتے ہیں، غیر بن کے ملتے ہیں
عمر بھر کی چاہت کو آسرا نہیں ملتا
دشتِ بے یقینی میں راستہ نہیں ملتا
خامشی کے وقفوں میں
بات ٹوٹ جاتی ہے اور سِرا نہیں ملتا
معذرت کے لفظوں کو روشنی نہیں ملتی
لذتِ پذیرائی، پھر کبھی نہیں ملتی
پھول رنگ وعدوں کی منزلیں سکڑتی ہیں
راہ مڑنے لگتی ہے
بیرخی کے گارے سے، بے دلی کی مٹی سے
فاصلے کی اینٹوں سے اینٹ جڑنے لگتی ہے
خاک اڑنے لگتی ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
واہموں کے سائے سے
عمر بھر کی محنت کو
پل میں لْوٹ جاتے ہیں
اک ذرا سی رنجش سے
ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
جلسے، جلوسوں نے عوام کا جوس نکال دیا!!!!!
Sep 21, 2024