جلسہ حکومت، انتظامیہ، پی ٹی آئی کیلئے بڑا امتحان 

تجزیہ :ندیم بسرا
 لاہور میں آج پی ٹی آئی کا جلسہ پنجاب حکومت، انتظامیہ اور خود سیاسی جماعت کے لئے بڑا امتحان ہوگا۔ انتظامیہ کی جانب سے ایک روز قبل شام کو جلسے کی اجازت دینے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے ورکرز کو جلسہ گاہ تک لانے میں مکمل کامیاب ہوسکے گی، یا نہیں؟۔ کیا گرفتاریوں سے بچ کر لیڈر شپ جلسہ گاہ تک پہنچ پائے گی؟۔ کیا گرفتاریوں کا جو تسلسل وفاق میں شروع ہوا اس کا دائرہ کار لاہور میں بھی اسی طرح ہوگا یا اس سے زیادہ ہوگا؟۔ کیا ایس او پیز کی پابندی نہ کرنے والے پی ٹی آئی کے ممبر صوبائی اسمبلی (پنجاب) اسمبلی گرفتاریوں سے بچنے کے لئے پنجاب اسمبلی کی حدود میں پناہ لے سکیں گے اور کیا پی ٹی آئی کے وکرز رکاوٹیں عبور کرکے جلسہ گاہ تک پہنچ سکیں گے؟۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا حالیہ دنوں سنگجانی (اسلام آباد) میں ہونے والا جلسہ پنجاب کی انتظامیہ کے لئے ایک قسم کا سبق تھا کہ امن و امان کو قائم رکھنے کیلئے کس قسم کی تیاریاں کرنی چاہئے تاکہ عوام پریشانی میں مبتلا نہ ہوں، اب باقاعدہ طور پر پی ٹی آئی کو جلسہ کی اجازت مل چکی ہے۔ مختصر وقت میں بڑے جلسے کے انتظامات (سٹیج، لائٹنگ، پنڈال، پارکنگ، سائونڈ سسٹم) کرنا ممکن ہوپائے گا۔ سکیورٹی کی ذمہ داری تو انتظامیہ پر ہوگی، باقی انتظامات تو پی ٹی آئی کی قیادت کو کرنا ہوں گے۔ پنجاب کی بات کریں توخصوصاً لاہور کی تو پی ٹی آئی کی قیادت کا کوئی بڑا چہرہ عرصہ دراز سے کسی بھی جگہ نظر نہیں آیا۔ پی ٹی آئی لاہور کی زیادہ تر قیادت یا تو روپوش ہے یا جیلوں میں مقدمات کا سامنا کر رہی ہے، دیکھا یہی گیا ہے کہ جس علاقے میں جلسہ ہوتا ہے وہاں کی مقامی قیادت بڑی اہمیت رکھتی ہے مگر یہاں پی ٹی آئی لاہور کی قیادت نہ ہونے کے برابر ہے۔ تو سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی اس جلسے میں بڑی تعداد میں ورکرز کو کہاں سے لائے گی۔ تو ذرائع بتاتے ہیں کہ وزیراعلی کے پی کے علی امین گنڈاپور اپنے ساتھ ورکرز کو لاسکتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بچھر لوگوں کو اکٹھا کررہے ہیں، یا لاہور کے پی ٹی آئی کے وکلاء حامد خان گروپ اس جلسے میںوکلاء کو لا سکتے ہیں۔ جلسہ کے لئے ایس او پی جو جاری کئے گئے ہیں اس کے مطابق انتظامیہ نے عمل درآمد کی پالیسی بھی جاری کی ہے۔ شرکاء پنڈال کے بعد باہر کہیں اکٹھے نہیں ہو سکیں گے، پرامن منتشر ہوجائیں گے۔ سیاسی جلسوں کی تاریخ یہی ہے کہ جلسے کبھی وقت پر شروع نہیں ہوئے اور نہ کبھی وقت پر ختم ہوتے ہیں، جلسے ہمیشہ کئی گھنٹے تاخیر سے شروع ہوکر مزید کئی گھنٹوں کے بعد ہی ختم ہوتے رہے ہیں۔ تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جلسہ بھی ماضی کے جلسوں کی عکاسی کرے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ایس او پی کی خلاف ورزی پر درجنوں مقدمات بن سکتے ہیں اور بیسیوں گرفتاریاں ہو سکتی ہیں اور یہ تعداد پی ٹی آئی اسلام آباد جلسے کے بعد گرفتایوں سے زیادہ ہوگی۔ اس کیلئے پنجاب پولیس نے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن