ہر سال پاکستان میں وزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام باوقار سیرت کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے، جو نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ سالانہ اجتماع نہ صرف علماء ، محققین اور نعت خوانوں کو اکٹھا کرتا ہے، بلکہ سیرت النبی کے مختلف پہلوؤں پر مبنی تحقیقی مقالہ جات اور کتب کے مقابلہ کے ذریعے علمی شراکتوں کو فروغ دینے کا بھی ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ سال 2024 میں سیرت کانفرنس کا موضوع "ریاست کا تعلیمی نظام: سیرت النبی ؐ کی روشنی میں" رکھا گیا، جو وزارت کی اس عزم کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺکی زندگی کی روشنی میں موجودہ مسائل کا جائزہ لے۔
یہ سیرت کانفرنس 11 اور 12 ربیع الاول کو ایک فکر انگیز ماحول میں منعقد ہوئی جس نے روحانی وابستگی اور علمی مباحثے کا حسین امتزاج پیش کیا، جو اس توازن کو نمایاں کرتا ہے کہ وزارت، نبی اکرم ﷺ کی زندگی کی خوشی مناتے ہوئے کس طرح دونوں پہلوؤں کو یکجا کرتی ہے۔ پہلے دن نعت خوانی کے لیے مختص کیا گیا، جہاں مشہور نعت خواں حضرات نے نبی کریم ﷺ کی مدح میں دل موہ لینے والی نعتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان شعری نغمات کے ذریعے سامعین کے دلوں میں محبت رسول کی گہری روحانی وابستگی پیدا ہوئی، اور پورا ماحول ایک جادوئی کیفیت میں ڈوب گیا۔ دوسرے دن کی تقریب میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کو مدعو کیے جانے سے وزارت کے اس عزم کا اعادہ ہوا کہ وہ اسلامی روایات میں بین المذاہب مکالمے اور اتحاد کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ علماء نے وزارت کی طرف سے مجوزہ موضوع "ریاست کا تعلیمی نظام: سیرت النبی ؐکی روشنی میں" کے حوالے سے گہرے اور فکر انگیز خیالات پیش کیے، اور موجودہ تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے مفید تجاویز دیں۔ ان کا اس بات پر زور دینا کہ نبی کریم ﷺ کی اخلاقی تعلیمات کو جدید نصاب میں شامل کیا جائے، انتہائی متاثر کن تھا، اور پالیسی سازوں کو اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ وہ تعلیمی نظام میں جامع اصلاحات پر غور کریں۔
اس کانفرنس کا ایک نمایاں پہلو مقالاتِ و کتب سیرت کا علمی مقابلہ تھا، جس میں پاکستان بھر کے محققین اور لکھاریوں کو پہلے ہی سے دعوت دی گئی تھی کہ وہ نبی اکرم ﷺکی سیرت پر اپنے مقالے اور کتابیں جمع کرائیں۔ مختلف علمی ماہرین نے بڑی باریک بینی سے ان تحریروں کا جائزہ لیا تھا، تاکہ صرف بہترین اور سب سے زیادہ تحقیق شدہ کاموں کو انعامات سے نوازا جائے۔ اس کے بعد، وزارت مذہبی امور کا پوزیشن ہولڈرز کے تمام سفری اخراجات برداشت کرنا، نیز ان کے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام کرنا، اس بات کا ثبوت تھا کہ ملک بھر میں علمی سرگرمیوں اور خاص طور پر مطالعہ سیرت النبیؐ کو فروغ دینے کے لیے وزارت سنجیدہ ہے۔ میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میری کتاب "Prophet Muhammad and Religious Pluralism: A Cross-Cultural Perspective" نے وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام منعقدہ اس قومی مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ یہ کام معاصر تحقیق میں ایک نمایاں اضافہ ہے جو آج کے متنوع معاشرے کے تناظر میں بین المذاہب مکالمے کے اہم موضوع کو بے حد خوبصورتی سے پیش کرتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت محمد ﷺکی تعلیمات مختلف مذہبی روایات کے درمیان احترام اور سمجھ بوجھ کو کیسے فروغ دیتی ہیں۔
اگرچہ یہ سیرت کانفرنس سیرت النبی ؐ کے حوالے سے اسلامی تحقیق کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم موقع ہے، تاہم اس میں کچھ پہلو ہیں جہاں بہتری لانے سے اس کی تاثیر بڑھائی جا سکتی ہے۔ ایک اہم تجویز یہ ہے کہ پاکستانی غیر مسلم اسکالرز کو بھی اس مقابلہ میں حصہ لینے کی ترغیب دی جائے۔ چونکہ ہم ایک تکثیری معاشرے میں رہتے ہیں، وزارت کو چاہیے کہ وہ غیر مسلم محققین کے لیے اس مقابلہ میں شرکت کے لیے ایک الگ کیٹیگری بنانے پر غور کرے۔ غیر مسلم شرکاء کے لیے مختلف پوزیشنز کا اعلان کرکے، وزارت مذہبی امور دوسرے مذاہب کے علماء کو بھی دعوت دے سکتی ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کریں اور اس مکالمے میں مثبت طور پر اپنا حصہ ڈالیں۔ تاریخی طور پر بہت سے غیر مسلم لکھاریوں نے سیرت ادب میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر، آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کیتھ وارڈ، جن سے میری آکسفورڈ میں اپنی پوسٹ-ڈاکٹریٹ تحقیق کے دوران 2022 میں ملاقات ہوئی، نے اسلامی تحقیق میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تحریریں نبی اکرم ﷺ کی زندگی کو سمجھنے کے لیے ایک متوازن اور احترام سے بھرپور نقط نظر کی عکاسی کرتی ہیں، جو اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان مشترکہ اخلاقی قدروں کو اجاگر کرتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر غیر مسلم پاکستانی لکھاریوں کو بھی اس مقابلہ میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے تو اْن میں مطالعہ سیرت کا رجحان پیدا ہو گا۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ جس طرح اس کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے اہم نکات اور تجاویز پیش کریں۔ اسی طرح، اْن غیر مسلم لکھاریوں کو بھی اس موقع پر سٹیج پر آنے اور اپنے مثبت خیالات پیش کرنے کا موقع ملنا چاہیے جن کی تحریروں نے مقابلہ میں کوئی پوزیشن حاصل کی ہو۔ اس اقدام سے آج کے تکثیری معاشرے میں بین المذاہب مکالمے، امن اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ ملے گا۔ غیر مسلم علماء کی شمولیت نہ صرف علمی تبادلوں میں وسعت پیدا کرے گی بلکہ یہ بھی ظاہر کرے گی کہ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہم سب کا مقصد امن اور ہم آہنگی کا قیام ہے۔ تیسری تجویز یہ ہے کہ وزارت کو کانفرنس کے بعد ایک جامع رپورٹ شائع کرنے پر غور کرنا چاہیے، جس میں اسلامی اسکالرز کی طرف سے دی گئی تجاویز اور اہم نکات ہوں۔ یہ دستاویز پالیسی سازوں، تعلیمی اداروں، اور علماء کے لیے ایک قیمتی ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے، اور اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ کانفرنس کے نتائج تعلیمی نظام اور دیگر شعبوں میں حقیقی بہتری کی راہ ہموار کریں۔
وزارت مذہبی امور کی جانب سے ہر سال منعقد کرائی جانے والی یہ سیرت کانفرنس ایک شاندار کامیابی ہے جس سے نہ صرف مذہبی تنوع کے احترام کو فروغ ملتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ محبت، امن، اور ہم آہنگی کی تعلیمات تمام انسانیت کے لیے یکساں اہم ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس علمی سفر کو جاری رکھیں، تاکہ مختلف عقائد اور ثقافتوں کے درمیان بہتر سمجھ بوجھ اور تعاون کی راہیں ہموار کی جا سکیں۔
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں ... میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے