حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک راستے سے گزر ہوا تو دیکھا کہ چند لوگ مِل کر ایک شخص کو مار رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ اس کو کیوں مار رہے ہو؟ تو اْنھوں نے کہا کہ اس نے فلاں جرم یا گناہ کیا ہے تو حضرت عیسیٰ ؑنے فرمایا: ’’ٹھہرو رْک جا?، اس کو اب صرف وہ شخص مارے گا جس نے خود یہ جرم نہ کیا ہو‘‘ تو سب کے سَر شرم سے جھک گئے۔ ہمارے سیاستدان پہلے تو پاک فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر حکومت میں آتے ہیں کیونکہ 77 سالہ تاریخ میں کسی ایک سیاسی پارٹی کی کارکردگی قابلِ رشک تو ہے نہیں تو پھر بعد میں پاک فوج کو درس دیتے ہیں کہ آپ کا کام سیاست کرنا نہیں۔ آپ آئین شکنی نہ کرو اور جائو سرحدوں کی حفاظت کرو۔ تو عرض ہے کہ معذرت کے ساتھ پہلے تو تمام سیاسی پارٹیاں ایک قطار میں کھڑی ہو جائیں اور صرف وہ ایک رْکن پارلیمنٹ پاک فوج کو یہ سبق سکھائے جس نے خود پوری زندگی میں آئین شکنی نہ کی ہو تو یقیناً ساری پارٹیوں کے سَر شرم سے جھک جائیں گے۔ اسی ہفتے کی بات ہے نون لیگ کے بزرگ سیاستدان خواجہ آصف پارلیمنٹ میں عورتوں کے خلاف نازیبا الفاظ کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے ہیں، آج کل فارم 47 کے حوالے سے بھی توجہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔ خواجہ صاحب جو کہ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ جن کی گود میں یہ پَلے ہیں آج بھی وہ ان کو یاد آتے ہیں۔ خواجہ صاحب اب عمر کے جس حصے میں ہیں، اس میں حافظہ بھی اکثر کمزور ہو جاتا ہے۔ ہم خواجہ صاحب کو یاد کراتے ہیں کہ آپ کی پارٹی بھی جنرل ضیاء الحق شہید کی پروردہ ہے۔ بہرحال کہتے ہیں اگر کسی ملک کو کمزور کرنا ہو تو اس ملک کی اپنی زبان کی بجائے کوئی دوسری زبان بچوں پر مسلط کر دو اور دوسرا یہ کہ اْس ملک کی افواج کو متنازع بنا دو۔ زبان تو اِن نام نہاد آئین کے پاسداروں نے 77 سال میں قائداعظم کے فرمان اور 73ء کے آئین کے مطابق آج تک ملک میں نافذ نہیں ہونے دی۔ اب پاک فوج کو متنازع بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں اْٹھائی جا رہی۔ آج جو اندرونی و بیرونی طور پر ہمیں بے پناہ چیلنجز کا سامنا ہے، پوری دنیا کے ہم مقروض ہیں۔ غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور لاقانونیت عروج پر ہے۔ 77سال بعد بھی ہم ’’بھکاری‘‘ بن کر پھرتے ہیں۔ اس کی ذمہ دار فوج نہیں ہے صرف سیاستدان ہیں۔ پاک فوج تو ہر مشکل گھڑی میں اپنی عوام کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔ سیلاب، زلزلے میں تباہی کاری ہو تو سب سے آگے پاک فوج ہی نظر آتی ہے، بلکہ یہاں تک جب الیکشن کا انعقاد ہو یا چند لوگ کسی سڑک پر جمع ہو جائیں تو آپ سیاست دانوں کی اہلیت تو اْن سے بات چیت کرنے کی بھی نہیں ہوتی۔ اب مذکورہ بالا یہ سارے کام آئین میں تو پاک فوج کو تفویض نہیں کیے گئے، لہٰذا پاک افواج کے خلاف زبان کھولنے سے پہلے ہر پارٹی کے سیاستدان صاحبان کو پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ یہ جو آج 9 مئی کے حوالے سے تمام پارٹیاں صرف ایک پارٹی کو طعنے دے رہی ہیں۔ بلاشبہ 9 مئی ایک حقیقت ہے، جس نے بھی کیا یا کرایا ہے اس کی صاف تحقیقات ہونی چاہیے اور مجرموں کو سرعام سزائیں دی جائیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ آج کل دیگر سیاسی پارٹیاں صرف 9 مئی کا وِرد کر کے خود کو بری الذمہ قرار نہ دیں اپنی کارکردگی دکھائیں۔ عوام کے مسائل حل کریں۔ ایک سال گزر جانے کے بعد بھی 9 مئی کے ملزموں کو سزائیں نہ دینا یہ بھی غفلت ہے۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے 9 مئی کے شر پسندوں کو سزائیں دیں، سزائیں تو آج تک سانحہ ماڈل ٹا?ن کے کرداروں کو بھی نہیں مل سکیں جنھوں نے تیرہ معصوم شہریوں کو مار دیا تھا۔ ملک کے حالات بدسے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک جھوٹ چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ لگتا ہے حکومت اِس چکر میں پھنس گئی ہے۔ پہلے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالت کو متنازع بنایا گیا، پھر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے منتظر تھے۔ وہ آئے تو سب کچھ حکومت کی مرضی کے مطابق ہو گیا۔ پھر مخصوص سیٹوں کا فیصلہ آیا۔ وہ بھی حکومت کو پسند نہیں تھا۔ بجائے اس پر عمل کرنے کے اب سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کے چکر میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب جو ججز لائے جا رہے ہیں وہ اِن (حکومت) کے اپنے ہوں گے؟ وہ فیصلے اِن کی مرضی کے مطابق کریں گے؟ یہ ہمارا عدالتی نظام ہے؟ ایک مسئلے کے حل کے سلسلے میں ملک کو مزید مسائل کی آماجگاہ نہ بنائیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک بات شروع میں کی، ہمیں وہ بہت ہی اچھی لگی۔ اْنھوں نے کہا کہ ہمیںجھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ ہم سب کو اْن کی اس بات پر عمل کرنا چاہیے۔ اچھے کام کی ابتدا اپنی ذات سے کرنی چاہیے۔ اب حکومت کی پوری کوشش ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایکسٹینشن قبول کریں کیوں کہ وہ انھیں ’’اپنے‘‘ لگتے ہیں۔ سْنا ہے کہ انھوں نے انکار کر دیا ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ ہر ایک کو اْس کا حق ملنا چاہیے۔ چیف جسٹس کو ایکسٹینشن کی آفر بالکل قبول نہیں کرنی چاہیے۔
77 سال بعد بھی ہم کس دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ پاک افواج کا ادارہ جو ہمارے ملک کی سلامتی و بقا کا ضامن اور ملک کی سرحدوں کا محافظ ہے اْس کو بھی متنازع بنا دیا گیا۔ مائیں جب بچوں کو پاک فوج میں بھیجتی ہیں تو اس سبق کے ساتھ کہ بیٹا اب غازی یا شہید بن کر واپس آنا ہے۔ ایک عدلیہ کا ادارہ تھا جو ملک میں اہمیت کا حامل ہے۔ جسٹس قیوم سے لے کر آج 2024ء تک آپ اْس کی ساکھ کو بھی مجروح کرنے پر تْلے ہیں۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ یہ ملک کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔ لاکھوں جانیں قربان ہوئیں، لاکھوں افراد دربدر ہوئے۔ اَب آپ اپنے ’’ذاتی مفادات‘‘ کی خاطر اس وطن کی توہین تو نہ کرتے جائیں کہیں تو رْک جائیں۔ اس کے مقاصد کی طرف دھیان دیں۔ بخدا آپ کے لْوٹنے سے اس میں فرق نہیں پڑے گا مگر آپ کو تاریخ اچھے نام سے نہیں پکارے گی۔
ملک کو ’’جمہوریت‘‘ کی آڑ میں آپ لْوٹ رہے ہیں۔ 77 سال بعد بھی عوام کو آٹے کے تھیلے کے حصول کے لیے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ حالانکہ یہ زرعی ملک ہے۔ چینی کی ملیں آپ سیاست دانوں کی ہیں۔ بجلی کے بِل آپ کی ذاتی کمپنیاں وصول کرتی ہیں۔ جمہوریت میں تو عوام کے نمائندے عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ آج آپ سارے اربوں کھربوں پتی ہیں اور عوام بجلی کا بِل دینے سے بھی مجبور ہیں۔ اپنے اِن سارے ’’کرتوتوں‘‘ کے باوجود الزام آپ پاک فوج پر لگاتے ہیں۔ بخدا اگر پاک فوج ضامن نہ ہوتی تو جس طرح آج پْورے ملک کے ادارے آپ نے دوسرے ملکوں کے آگے ’’گِروی‘‘ رکھے ہیں آپ پورے ملک کا بھی سودا کرنے ے گریز نہ کرتے۔ جہاں آپ نے اپنی 50 کروڑ تک کرپشن معافی کا قانون بنایا ہے وہاں یہ قانون بھی بنایا جائے جو کوئی بھی پاک فوج کے بارے نازیبا الفاظ استعمال کرے اْسے کم از کم 10 سال کی سزا دی جائے۔ ’’پارلیمنٹ‘‘ کو ’’مقدس‘‘ تو کہا جاتا ہے، یہ بھی دیکھا جائے کہ ’’مقدس‘‘ ارکان اپنی ذات کے لیے 50 کروڑ تک کی کرپشن کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ کیا اس سے ملک میں کرپشن کو فرو غ نہیں ملے گا۔ کیا یہ عوام جو غربت کی چکی میں 77 سال سے پِس رہے ہیں، یہ قانون عوام کے بنیادی حقوق کے منافی نہیں ہے؟ بلاشبہ ہر کوئی اپنے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اپنی اپنی پارٹی کی اندھا دھند ترجمانی کرتا ہے۔ کوئی ایک تو ملک کے مفاد میں بھی بات کرے؟ پہلے یہ تعین کریں کہ پارلیمنٹ میں تشریف فرما ارکان فارم 45 کے تحت آئے ہیں یا فارم 47 کے تحت؟ پارلیمنٹ تب ہی ’’مقدس‘‘ ادارہ کہلائے گا جب سب ارکان فارم 45 کے تحت تشریف لائیں گے اور وہ ہی پارلیمنٹ ’’مقدس‘‘ کہلائے گی اور ملکی سلامتی و بقا اور عوام کے مفاد میں قانون سازی کرے گی۔
آخر میں عرض کرتا چلوں کہ چند روزقبل لاہور میں رہائش پذیر 96 سالہ خورشید احمد صاحب نامی بزرگ سے فون پر میری بات ہوئی۔ درد بھری آواز میں وہ ملک کی حالت ِ زار پر انتہائی پریشان تھے اور دْعا گو تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے وطن کو نظرِ بَد سے محفوظ رکھے۔ ظاہر ہے اْنھوں نے پاکستان کو اپنی آنکھوں کے سامنے بنتا دیکھا تھا۔ اللہ اْنھیں سلامت رکھے۔ آمین!