سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی آئینی ترامیم بہت ہی گنجلک مسئلہ ہے ،اس میں بہت ہی زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے ،یہ اتنا آسان معاملہ نہیں ہوا کرتا ہے اور کسی بھی ترمیم کو لانے کے لیے بہت مشاورت اور اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے ،اور کسی بھی ترمیم کو لانے کے لیے اجتماعی دانش اور عقل مندی کی ضرورت ہوتی ہے ،یعنی جمہور کی آواز اور جمہور کی سوچ ہی کسی بھی ترمیم کی بنیاد ہوتی ہے ،لیکن کوئی بھی قانون یا آئینی ترمیم لانے کا ایک طریقہ کا ر ہو تا ہے ایک ڈیکورم ہو تا ہے اس کے بغیر اگر کوئی بھی قانون یا پھر آئینی ترمیم بلڈوز کرکے لائی جائے تو پھر یہ ڈکٹیٹر انہ رویہ ہو گا ،اور آمریت کی سوچ اور طرز عمل کی عکاسی ہو گی جو کہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ہوتا رہا ہے لیکن اب ان چیزوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اور حکومت کی جانب سے جو حالیہ ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی اس حوالے سے تو بہت سی چیزیں بہت ہی واضح تھیں کہ یہ ترامیم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کی جارہی تھیں جن سے کہ ہر محاذ پر فائدہ لیا جانا تھا۔کبھی بھی کسی بھی آئینی ترمیم کو جلدی میں کرنے کے حوالے سے سوچ نہیں ہو نی چاہیے ،یہ جو آئینی ترمیم کی جارہی ہے اس کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا کہ کسی کے پاس اس حوالے سے کو ئی تحریری چیز نہیں تھی نہ ہی کو ئی مسودہ تھا بس صرف اور صرف قیاس آرائیوں سے کام لیا جا رہا تھا ہر کو ئی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔ہر کوئی یہی سوال کر رہا تھا کہ حکومت کے پاس تو اکثریت بھی نہیں جو کہ کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے مطلوب ہوتی ہے نہ ہی حکومت کی جانب سے سیاسی جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بظاہر کوئی با معنی گفت و شنید کی گئی ہے ،نہ ہی کو ئی وسیع تر مشاورت کا عمل نظر آیا ،سوال تو یہی تھا کہ اس طرح سے کیسے حکومت آئینی ترمیم کر سکتی ہے ،مثال کے طور پر 18ویں آئینی ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کی گئی اور اور تمام سیاسی قیادت کی آشیر باد اس ترمیم کو حاصل تھی کیونکہ یہ ایک بہت ہی بڑی ترمیم تھی ،لیکن اس سب کے باوجود یہ ترمیم عوام کی رائے سے محروم تھی۔اور یہ ہماری سیاست کا بڑا المیہ رہا ہے کہ عوام کو ووٹ کے لیے تو استعمال کیا جاتا ہے لیکن بس الیکشن کے دن ہی ان کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اور پھر ایک عجب سی سیاسی ملوکیت چھا جاتی ہے اور محسوس ایسا ہو تا ہے کہ پوری کی پوری سیاست پوری کی پوری جمہوریت چند اشخاص کے گرد ہی گھومتی ہو ئی دیکھائی دیتی ہے سیاسی معاملات چند افراد کے گرد گھومتے ہیں اور ڈیڈ لاک کا شکار ہو جاتے ہیں ،یہ ہمارے سیاسی لیڈران کے لیے بھی بہت ہی بڑا امتحان ہے کہ وہ عوام کی رائے اور عوام کی بہتری کو فوقیت دیں ،عوام کو صرف اپنے سیاسی ایندھن کے لیے استعمال نہ کریں۔بہر حال جس طریقے سے یہ ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ بالکل ہی نا مناسب ہے اور اس طرح سے عجلت میں کی جانے والی ترمیم کو صرف آمرانہ سوچ کا مظہر ہی کہا جاسکتا ہے۔جس انداز میں پولیس نے قومی اسمبلی پر چھاپہ مارا اور جس انداز سے اسمبلی کے اندر سے ممبران کو گرفتا ر کرکے لے جایا گیا ہے پوری قوم کے لیے شرم کا مقام تھا ،ایسا ہونا پارلیمان کی بہت بڑی بے توقیری ہے اور یہ کسی صورت میں بھی نہیں ہونا چاہیے تھا ،پارلیمنٹ ہی تمام اداروں کی سرخیل ہے اور اس سرخیل کی جتنی عزت کی جائے اور جتنی حفاظت کی جائے اتنا ہی بہتر ہے اور جتنا اس ادارے کی عزت کی جائے گی انتی ہی اس ادارے کے ممبران میں احساس ذمہ داری بڑھے گی ،اور وہ صیح معنوں میں عوام کا حق نمائندگی ادا کر سکیں گے۔پارلیمان کو مضبو ط کرنے کی ضرورت ہے اور ارکان پارلیمان کو اصل کام یعنی کہ قانون سازی کی جانب واپس لانے کی ضرورت ہے۔میں پہلے بھی بات کر چکا ہوں کہ ہمارے ہاں ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈ کے پیچھے لگا دیا گیا ہے اور ان کی سیاسی زندگی کا مقصد ہی ان فنڈز کا حصول بن چکا ہے اس صورتحال کو اس سوچ کو اور اس مائنڈ سیٹ پر کام کرنا ہو گا اور اس کو تبد یل کرنا ہو گا ،ہم مزید اس سوچ کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ہمیں اپنے طور طریقوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ان ترقیاتی فنڈز سے نہ تو حلقے کی ترقی ہو تی ہے اور نہ ہی عوام کا کو ئی فائدہ ہو تا ہے البتہ یہ ضرور ہو تا ہے ،عوام کا پیسہ ہوا میں اڑ جاتا ہے۔اس عمل کو روکنے کی ضرورت ہے،اگر یہی پیسہ اجتماعی انداز میں خرچ کیا جائے تو زیادہ بہتری لائی جاسکتی ہے ،ہمیں اس وقت یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔پارلیمان کے خلاف سازشیں اور اس کو بے وقت اور بے تو قیر کرنا وطیرہ رہا ہے ،لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں۔بہر حال حالات سنگین ہیں ،ملک کی تباہ کن اقتصادی حالت ہے ،اور یہ جو (Political bickering) ہے یعنی کہ سیاسی عدم استحکام ہے ،اس کو ختم کرکے قو م میں یکجہتی لانے کے لیے اکثریت کو قربانی دینا پڑے گی۔ابھی حال ہی میں کے پی کے کے وزیر اعلیٰ ایک ملک کے قونصل جنرل سے ملیں ہیں ،اور کسی وزیر اعلیٰ کا اسی کے صوبے میں تعینات قونصل جنرل سے ملنا کوئی بڑی بات نہیں ہے ،لیکن اس پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے جو واویلا مچایا ہے وہ ناقابل فہم تھا اور اس نے سب کو پریشان کر دیا ہے لیکن اگر کسی اور صوبے کا وزیر اعلیٰ کسی قونصل جنرل سے ملے تو اسے ترقی کا نام دیا جاتا ہے۔اس قسم کے بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے۔حکومت کو کوئی کام کرنا ہی ہے تو یہ کرے کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی کرے ،اس کے لیے آئینی ترمیم لانی پڑتی ہے تو لائے ،یہ ہمارے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے ،اس سے سیاسی ،سماجی اور اقتصادی حالات میں بھی بہتری آئے گی۔