اسلام آباد( اپنے سٹا ف رپو رٹر سے )ایوان بالا کی تفویض کردہ قانون سازی کمیٹی کا اجلاس چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسیمہ احسان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا۔ سینیٹ کمیٹی اجلاس میں وزارت قانون و انصاف ،وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندوں نے لاوارث بچوں کو گود لینے کے قوانین اور خاص طور پر اسلام اباد میں بچوں کو گود لینے کے حوالے سے بناے گئے قوانین اور طریقہ کار کے امور سے تفصیلی بریفنگ دی۔ چیئر پرسن کمیٹی،سینیٹر نسیمہ احسان نے متعلقہ وزارتوں کے نمائندوں سے سوال کیا کہ پاکستان میں لاوارث بچوں کو گود لینے کے حوالے سے ملک میں کیا قوانین رائج ہیں اور وہ جوڑے جو بے اولاد ہیں وہ مختلف اداروں سے کس طرح بچوں کو گود لیتے ہیں ان کے کیا طریقہ کار ہیں ۔وزارت مذہبی امور کے نمائندوں نے کمیٹی ہذا کو بتایا کہ پاکستان میں ایسا کوئی ایکٹ نہیں ہے جو خصوصی طور پر لاوارث بچوں کی کفالت کے معاملات سے متعلق ہو۔ البتہ گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ کے تحت عدالتوں کے ذریعے لاوارث بچوں کو گود لیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ ایکٹ کم عمر بچوں کی تحویل اور سرپرستی کے معاملات سے متعلق ہے اور اس ایکٹ کے تحت عدالتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وضع کردہ طریقہ کار کے تحت کم عمر بچوں کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے گارڈین یا کسٹوڈین یا دونوں مقرر کریں۔ گود لینے والے والدین کو گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ کے سیکشن 7 کے تحت پاکستان کے سول یا فیملی کورٹ میں بچے کی سرپرستی کے لیے درخواست دینا پڑتی ہے اس کا مکمل طریقہ کار مذکورہ ایکٹ کے سیکشن 10 میں بیان کیا گیا ہے ۔گارڈین کورٹ متعلقہ شخص کے حق میں سرٹیفیکیٹ جاری کرتی ہے جس کے بعد انہیں نیشنل ڈیٹا اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی نادرا کے دفاتر سے بی فارم جسے سی ار سی چائلڈ رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کہا جاتا ہے بھی حاصل کرنا پڑتا ہے ۔