میاںنواز شریف صاحب سے ایک تخیلاتی انٹرویو!

سوال: میاں صاحب ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے ہمارے لئے وقت نکالا ہے۔ ہم ایک عرصے سے کوشش کر رہے تھے کہ ملک کے مقبول سیاست دان کا انٹرویو لیا جائے لیکن جب بھی پتہ کیا آپ غیر ملکی دورے پر ہوتے ہیں اگر ہماری مالی حالت پتلی نہ ہوئی تو ہو سکتا ہے۔ ہم لندن جا کر آپ کا انٹرویو کرتے۔ ایک تو یہ بروقت چھپ جاتا اور دوسرا ہمیں آپ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کا موقعہ ملتا۔ فائیو اسٹار ملینیئم ہوٹل میں ٹھہرنے کا تصور ہی بڑا جاں افروز ہے۔ مولانا فضل الرحمن آج بھی چٹخارے دار زبان میں اپنے قیام کا ذکر کرتے ہیں۔
جواب: دیر آید درست آید۔ ویسے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی۔ جب سرکاری دورے کرتے تھے تو اس وقت بے جا اصراف کی تنقید ہوتی تھی اب جبکہ اپنے خرچ پر باہر جاتے ہیں تو بھی اعتراض ہوتا ہے۔ لگتا ہے آپ لوگوں کو تنقید برائے تنقید کی عادت پڑ گئی ہے۔
سوال: آئیے تھوڑا سا پیچھے چلتے ہیں۔ آپ سے وزارت عظمیٰ کے آخری دنوں میں کیا غلطیاں ہوئیں۔
جواب: کوئی ایک ہو تو بتائوں! سب سے بڑی غلطی ایک جونیئر اور کھلنڈرے جرنیل کو فوج کی کمان سونپنا تھی۔ اس نے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارا اور اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔
سوال: یہ الزام تو آپ پر بھی لگتا ہے کہ آپ نے جونیجو کو دھوبی پٹڑہ مارا تھا۔
جواب: کیا آپ قتل عمد اور خود کشی میں تمیز نہیں کر سکتے۔ جونیجو اپنی تباہی کا خود مصنف تھا۔ اس کو پنجابی میں ’’ٹھنڈے دودھ نوں پھوکاں مارنا‘‘ بھی کہتے ہیں۔
سوال: پرویز مشرف کو ہٹانے کا مشورہ کس نے دیا تھا۔ کیا یہ حواریوں، درباریوں، سیف الرحمانوں اور سعید مہدیوں کی کارستانی تھی یا اپنی عقل سلیم کا کرشمہ تھا۔
جواب: وہی لوگ اسے ہٹانے پر مصر تھے جو لانے میں پیش پیش تھے۔
سوال: یہ باتیں اس لئے اہم ہیں کہ ملک کی تاریخ مرتب ہو رہی ہے جس کے مرکزی کرداروں میں سے ایک آپ بھی ہیں۔ جب جہانگیر کرامت نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک ماہ قبل سکیورٹی کونسل کی تجویز پیش کی تو آپ کو اس بات کا خیال نہیں آیا کہ وہ بولا نہیں بلوایا گیا ہے۔
جواب: خیال تو آیا تھا اس کے مضمرات کا نہ سوچا تھا۔
سوال: یہ جانتے ہوئے بھی کہ مرد حر ایک تحریری معاہدے سے منحرف ہو گئے ہیں۔ آپ نے دوسرا اور تیسرا معاہدہ کر ڈالا۔ کیا یہ سادہ لوحی نہیں ہے؟
جواب: سادگی میں بھی ایک پر کاری ہوتی ہے۔ ہر حکمت عملی سازگار حالات کی مرہون منت ہوتی ہے۔ دیکھیں عنقریب ہی گنبد نیلو فری سے اچھلتا ہے کیا؟
سوال: آپ کے خیال میں یہ حکومت کتنا عرصہ چل پائے گی۔ سنا ہے آپ عنقریب ہی مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ کرنے والے ہیں۔
جواب: خیال اور خواہش میں ایک فاصلہ رکھنا پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے ’’اندر‘‘ سے ہی ایسی صدائیں آنے لگیں۔
سوال: ملک معاشی بحران سے دوچار ہے۔ پچھلی مرتبہ آپ کی مہم ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ بڑی کامیاب رہی تھی ۔ اب کے اقتدار میں آگئے تو کیا سلوگن ہو گا؟
جواب: قوم جگائو، قرض بھگائو۔
سوال: اس قدر پر کشش سلوگن جس شخص کے ذہن کی اختراع تھا کیا وہ ہنوز آپ کے ساتھ ہے۔
جواب: نہیں! اب وہ کسی اور کا بھٹہ بٹھانے گیا ہے۔
سوال: آپ کے متعلق ایک طویل عرصہ تک مشہور تھا کہ آپ ایک اچھے دوست اور زبردست دشمن ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دشمنی کو تو پر لگ گئے ہیں لیکن دوستی کو طاق نسیاں میں رکھ دیا ہے؟
جواب: یہ طاق نسیاں کیا ہوتا ہے؟
سوال: آپ کا پسندیدہ گانا کون سا ہے۔
جواب: وہی جو میں نے فون پر گایا تھا۔
سوال: پسندیدہ ڈش؟
جواب: ون ڈش! کیا آپ پنجاب حکومت کے کارناموں کے اشتہار نہیں پڑھتے؟
سوال: چوہدری برادران، شاکی ہیں کہ آپ نے ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے ان کے ممبران اسمبلی توڑ لئے ہیں۔
جواب: بھائی! یہ پرانے مسلم لیگی ہیں۔ صبح کے بھُولے اگر شام کو گھر لوٹ آئیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟
سوال: اور وہ جو آٹھ سال تک آپکی چاہت میں بھٹکتے رہے ہیں اور مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر ان سے الیکشن ہارگئے تھے، ان کاکیا بنے گا؟ کیونکہ اگلے الیکشن میں آپ نے فارورڈ بلاک کو ٹکٹ دینے کا عندیہ دیا ہے؟
جواب: ان کا بھی اللہ مالک ہے۔ ممبری تو بہت چھوٹی چیز ہے۔ اصل چیز تو ملک و قوم کی خدمت ہے ناں!
سوال: شروع میں امریکہ اور دیگرحساس اداروں کے متعلق آپ کا رویہ اور لب و لہجہ بڑا سخت تھا، جس میں بتدریج نرمی اور تعلقات میں گرمی آ رہی ہے۔لگتا ہے تیسری بار وزیراعظم بننے کی گھڑی قریب آ گئی ہے؟
جواب: (مسکراتے ہوئے) یہ ہوائی بھی دشمن نے اڑائی ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...