سید علی گیلانی (چیئرمین حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر) .............
٭۔ فرمانِ شہ نادر
اے مسافر! تیری درد بھری اور پرتپش آواز سے میں جل اٹھا ہوں۔ وہ قوم کتنی خوش بخش‘ خوش نصیب اور لائق صد آفرین ہے جو تیری زندگی کے راز‘ تیرے دل کی دھڑکن‘ تیری تمنا‘ تیری آرزو اور تیرے مقاصد و اہداف سے واقف اور جانکاری رکھتی ہو۔
اے میرے عقیدت مند! تیرے اس غم دین و ملت سے ہماری قوم پوری طرح آشنا اور واقف راز ہے۔ ہماری ملت اور افغان قوم جانتی ہے کہ درد و اخلاص سے پُر یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ ہمارے آغوش سحاب میں بجلی کی طرح کڑکنے والے تیرے نور اور تیری پرسوز آواز سے پورا مشرق روشن اور تابند ہے۔ ایک طویل عرصے تک ہمارے کوہساروں میں درخشندگی اور تابناکی کا مظاہرہ کرے۔ دین اسلام اور رسول رحمتؐ کے ساتھ ہمارا ایمان‘ محبت اور عشق میں وہی تابندگی‘ استحکام اور استقلال پیدا کر دے‘ جو مطلوب و مقصود ہے۔ تم کب تک بندشوں اور حصاروں میں بندھے اور گھرے رہو گے۔ تیرا پیغام کلیمی ہے۔ تجھے سینا کی وادیوں کی تلاش میں سرگرم سفر رہنا چاہیے۔ اس نادر شاہی فرمان کے بعد اقبال افغانستان میں اپنی سیاحت کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’میں نے افغانستان میں باغ‘ مرعزار اور دشت و صحرا چھان مارے‘ باد صبا کی طرح میں نے افغانستان کے پہارڑ اور ٹیلے دیکھ بھال لئے۔ درہ خیبر مردان حق آشنا سے نامانوس نہیں ہے۔ اسکے دل میں تو ہزاروں افسانے‘ واقعات اور تاریخی شواہد پوشیدہ ہیں۔ اس راہ کے نشیب و فراز اور پیچ و خم میں تو انسان کی نظر بھی گم ہو جاتی ہے۔ افغانستان کے کہساروں کے دامن میں آپ سبزہ تلاش نہ کریں۔ اسکے ضمیر میں رنگ و بو کی نمود اور اٹھان نہیں ہے۔ اس سرزمین کے چکور‘ شاہین صفت اور شاہین مزاج ہیں۔ اس سرزمین غیرت مند کے ہرن‘ شیروں سے بھی خراج وصول کرتے ہیں۔‘‘
ان اشعار میں افغانیوں کی غیرت مندی‘ حوصلہ‘ ہمت‘ جوان مردی اور بہادری کی تعریف کی گئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغانیوں نے برطانوی سامراج‘ روسی سامراج اور اشتراکی مزاج اور فلسفہ کو شکست دیدی۔ آج اقبال کے کلام بلاغت نظام کے حوالے سے افغان کا تذکرہ آ رہا ہے‘ تو افغانستان کے غیر مند عوام آج امریکی اور اسکے اتحادیوں کے ظلم و جبر‘ انسان کشی اور بدترین قسم کی سامراجی چالو ںاور فریب کاریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ نیٹو کی فوجیں افغانیوں کی ہمت اور حوصلہ مندی کی بزبان حال معترف ہیں۔ بہت جلد وہ روسی سامراج کی طرح وہاں سے نکل کھڑی ہوں گی اور افغان قوم اپنا دینی اور ملی تشخص پھر بحال کرنے میں کامیاب و کامران ہو گی۔ انشاء اللہ۔ طالبان اور القاعدہ کے نام محض ایک بہانہ ہے۔ امریکی اور انکے اتحادی سامراج کے مقابلے میں براہ راست افغان عوام معرکہ آرائی میں مصروف ہیں۔ انکے معصوم بچے‘ خواتین اور عام شہری‘ سامراجی قوتوں کی بم باری کا نشانہ بن رہے ہیں …ع
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر
پیرروم کا پیغام: رزق اللہ سے طلب کر، کسی زید یا عمر سے طلب نہ کر، مستی، جوش اور جذبہ اللہ تعالیٰ سے بندگی کا تعلق استوار کر کے حاصل کرنے کی کوشش کر۔ بھنگ اور شراب سے مستی اور نشہ تلاش مت کر، مٹی مت کھاؤ، مٹی مت خریدو اور مٹی کی تلاش میں مت پھرو کیونکہ مٹی کھانے والا ہمیشہ زرد رہتا ہے۔ دل کو تلاش کرو تاکہ ہمیشہ جاوداں وجوان رہو۔ اللہ کی معرفت سے تمہارا چہرہ گلاب کی مانند شاداب اور تازہ ہو گا اللہ کا بندہ بن کر زندگی گزارنے کا طریقہ اور راستہ اختیار کرو اور زمین پر تیز رو گھوڑے کی طرح رہو جنازے کی طرح زندگی نہ گزارو کہ جو دوسروں کی گردنوں اور شانوں پر اٹھایا جاتا ہے‘ پیرِ رومی کا پیغام پہنچانے کے بعد حکیم الامت کا کلام شروع ہو رہا ہے۔
نیلے آسمان کی شکایت مت کرو، انسان کی زندگی میں جو حادثات،واردات اور رنج و محن آتے ہیں ان کو اکثر گردش آسمان اور تقدیر سے وابستہ کیا جاتا ہے اقبال فرماتے ہیں کہ اپنی ذات کو محور بناؤ اپنی ہی ذات کے آفتاب کے گرد طواف کرنے پرقناعت کرو، آسمان کی شکایت اور گردش دوران کی شکایت لاحاصل عمل ہے۔ ذوق و شوق کے مقام سے آگاہ ہو جاؤ اگرچہ تم ذرہ خاک ہو مگر سورج اور چاند کو اپنی کمند میں لاؤ، عالم موجود، گردوپیش کی دنیا کو جاننے کی کوشش کرو اور دنیا میں اپنا پیغام اور مشن عام کرنے کی کوشش میں مگن رہو اسی طرح تم دنیا میں جانے اور پہنچانے جاؤ گے اور تمہارا آوازہ بلند ہو گا۔ کائنات کا نظام، وحدت کا مظہر ہے اس دنیا میں وحدت سے ہی زندگی قائم ہے۔ ’’ اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی کیساتھ پکڑے رکھو، الگ الگ راستے اختیار مت کرو‘‘ (آل عمران 103-3)
رنگ، زبان، نسل، وطن اور ذات پات پرانے بتوں سے نجات حاصل کرو دور جاہلیت کی نفسانی خواہشات اور رسم ورواج سے پناہ مانگو جاہلیت کی ان رسموں کی قیمت اور حقیقت جُو کے دو دانوں کے برابر بھی نہیں ہے تازہ آرزوؤں کی نقش بندی کرو۔ آخری دین جس کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ‘‘ (المائدہ 3-5) انسان کی زندگی، آرزو پر بنیاد اور اساس رکھتا ہے اپنے آپ کواپنی پاکیزہ تمناؤں اور اعلیٰ آرزوؤں کے حوالے سے پہنچانو جیسے معروف اور متد اول قول ہے:
دُنیا بہ اُمید قائم است!
مومن اور بندہ حق کی امید اور تمنا اللہ کی رضا، خوشنودی اور اسکے دین کی سربلندی، دنیا کی کامرانی اور آخرت کی فلاح ہے اس کیلئے اللہ کا بتایا ہوا راستہ اختیار کرنا ہی مطلوب و مقصود ہے۔ انسان کی آنکھیں، کان، ہوش و حواس، آرزو سے ہی متحرک اور زندہ رہتے ہیں یہ مشت خاک، اولادِ آدم، آرزو سے ہی لالہ خیز بن جاتی ہے۔ ایسی مٹی جس میں گل لالہ اُگتے اور نشونما پاتے ہیں جس انسان نے آرزوؤں اور تمناؤں کے بیج اپنے دل کی کھیتی میں نہ بوئے وہ پتھروں اور اینٹوں کی طرح دوسروں کی پامالی کا شکار اور نشانہ بنتا ہے۔ نیک تمنائیں، بلند ارادے اور مقصد زندگی کے حوالے سے خوش آئند آرزوئیں، ہر بادشاہ اور سردار کا سرمایہ حیات ہیں۔ آرزو ہر فقیر کیلئے جامِ جہاں بین کی حیثیت رکھتی ہے انسان جو آب و گل کا مجسمہ ہے اسکو آرزو ہی انسان بنا دیتی ہے۔ آرزو ہم کو اپنی پہچان اور شناخت بتا دیتی ہے آرزو آگ کی چنگاری کی طرح ہمارے جسم سے بلند ہوتی ہے اور ایک خاک کے ذرے کو آسمان وسعت اور پنہائی سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ آذر کی اولاد نے کعبہ تعمیر کیا ایک نگاہ خدا شناس و خدابین نے خاک کو اکیسر بنا دیا تم بھی اپنے بدن میں خودی پیدا کرو اوراپنی مشت خاک کو اکیسر بناؤ۔
کابل میں شاہِ افغان اور اقبال:
افغانستان کے سفر کے دوران میں اقبال کابل کے شہر میں وارد ہوتے ہیں اور بادشاہِ وقت کے دربار میں ملاقات کیلئے آتے ہیں۔ اپنے کام میں سب سے پہلے وہ کابل شہر کی تعریف کرتے ہیں اس پورے خطے میں کابل جنت کی مانند ہے اسکے انگوروں سے آبِ حیات جیسا رس حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مرزا صائب جو ایران کے مشہور و معروف شاعر تھے انکے بارے میں تاریخ بتا رہی ہے کہ غنی کشمیری کے کلام میں کرالہ پن کے معنی دریافت کرنے کیلئے وہ ایران سے کشمیر آئے تاکہ غنی کشمیری سے اس کشمیری لفظ کے معنی دریافت کریں۔ اقبال کابل کے بارے میں صائب کے شعر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں صائب نے کہا ہے …ع
خوشا وقتے کہ چشمم از سوادش سرمہ چیں گردد‘‘
(جاری ہے)
٭۔ فرمانِ شہ نادر
اے مسافر! تیری درد بھری اور پرتپش آواز سے میں جل اٹھا ہوں۔ وہ قوم کتنی خوش بخش‘ خوش نصیب اور لائق صد آفرین ہے جو تیری زندگی کے راز‘ تیرے دل کی دھڑکن‘ تیری تمنا‘ تیری آرزو اور تیرے مقاصد و اہداف سے واقف اور جانکاری رکھتی ہو۔
اے میرے عقیدت مند! تیرے اس غم دین و ملت سے ہماری قوم پوری طرح آشنا اور واقف راز ہے۔ ہماری ملت اور افغان قوم جانتی ہے کہ درد و اخلاص سے پُر یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ ہمارے آغوش سحاب میں بجلی کی طرح کڑکنے والے تیرے نور اور تیری پرسوز آواز سے پورا مشرق روشن اور تابند ہے۔ ایک طویل عرصے تک ہمارے کوہساروں میں درخشندگی اور تابناکی کا مظاہرہ کرے۔ دین اسلام اور رسول رحمتؐ کے ساتھ ہمارا ایمان‘ محبت اور عشق میں وہی تابندگی‘ استحکام اور استقلال پیدا کر دے‘ جو مطلوب و مقصود ہے۔ تم کب تک بندشوں اور حصاروں میں بندھے اور گھرے رہو گے۔ تیرا پیغام کلیمی ہے۔ تجھے سینا کی وادیوں کی تلاش میں سرگرم سفر رہنا چاہیے۔ اس نادر شاہی فرمان کے بعد اقبال افغانستان میں اپنی سیاحت کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’میں نے افغانستان میں باغ‘ مرعزار اور دشت و صحرا چھان مارے‘ باد صبا کی طرح میں نے افغانستان کے پہارڑ اور ٹیلے دیکھ بھال لئے۔ درہ خیبر مردان حق آشنا سے نامانوس نہیں ہے۔ اسکے دل میں تو ہزاروں افسانے‘ واقعات اور تاریخی شواہد پوشیدہ ہیں۔ اس راہ کے نشیب و فراز اور پیچ و خم میں تو انسان کی نظر بھی گم ہو جاتی ہے۔ افغانستان کے کہساروں کے دامن میں آپ سبزہ تلاش نہ کریں۔ اسکے ضمیر میں رنگ و بو کی نمود اور اٹھان نہیں ہے۔ اس سرزمین کے چکور‘ شاہین صفت اور شاہین مزاج ہیں۔ اس سرزمین غیرت مند کے ہرن‘ شیروں سے بھی خراج وصول کرتے ہیں۔‘‘
ان اشعار میں افغانیوں کی غیرت مندی‘ حوصلہ‘ ہمت‘ جوان مردی اور بہادری کی تعریف کی گئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغانیوں نے برطانوی سامراج‘ روسی سامراج اور اشتراکی مزاج اور فلسفہ کو شکست دیدی۔ آج اقبال کے کلام بلاغت نظام کے حوالے سے افغان کا تذکرہ آ رہا ہے‘ تو افغانستان کے غیر مند عوام آج امریکی اور اسکے اتحادیوں کے ظلم و جبر‘ انسان کشی اور بدترین قسم کی سامراجی چالو ںاور فریب کاریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ نیٹو کی فوجیں افغانیوں کی ہمت اور حوصلہ مندی کی بزبان حال معترف ہیں۔ بہت جلد وہ روسی سامراج کی طرح وہاں سے نکل کھڑی ہوں گی اور افغان قوم اپنا دینی اور ملی تشخص پھر بحال کرنے میں کامیاب و کامران ہو گی۔ انشاء اللہ۔ طالبان اور القاعدہ کے نام محض ایک بہانہ ہے۔ امریکی اور انکے اتحادی سامراج کے مقابلے میں براہ راست افغان عوام معرکہ آرائی میں مصروف ہیں۔ انکے معصوم بچے‘ خواتین اور عام شہری‘ سامراجی قوتوں کی بم باری کا نشانہ بن رہے ہیں …ع
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر
پیرروم کا پیغام: رزق اللہ سے طلب کر، کسی زید یا عمر سے طلب نہ کر، مستی، جوش اور جذبہ اللہ تعالیٰ سے بندگی کا تعلق استوار کر کے حاصل کرنے کی کوشش کر۔ بھنگ اور شراب سے مستی اور نشہ تلاش مت کر، مٹی مت کھاؤ، مٹی مت خریدو اور مٹی کی تلاش میں مت پھرو کیونکہ مٹی کھانے والا ہمیشہ زرد رہتا ہے۔ دل کو تلاش کرو تاکہ ہمیشہ جاوداں وجوان رہو۔ اللہ کی معرفت سے تمہارا چہرہ گلاب کی مانند شاداب اور تازہ ہو گا اللہ کا بندہ بن کر زندگی گزارنے کا طریقہ اور راستہ اختیار کرو اور زمین پر تیز رو گھوڑے کی طرح رہو جنازے کی طرح زندگی نہ گزارو کہ جو دوسروں کی گردنوں اور شانوں پر اٹھایا جاتا ہے‘ پیرِ رومی کا پیغام پہنچانے کے بعد حکیم الامت کا کلام شروع ہو رہا ہے۔
نیلے آسمان کی شکایت مت کرو، انسان کی زندگی میں جو حادثات،واردات اور رنج و محن آتے ہیں ان کو اکثر گردش آسمان اور تقدیر سے وابستہ کیا جاتا ہے اقبال فرماتے ہیں کہ اپنی ذات کو محور بناؤ اپنی ہی ذات کے آفتاب کے گرد طواف کرنے پرقناعت کرو، آسمان کی شکایت اور گردش دوران کی شکایت لاحاصل عمل ہے۔ ذوق و شوق کے مقام سے آگاہ ہو جاؤ اگرچہ تم ذرہ خاک ہو مگر سورج اور چاند کو اپنی کمند میں لاؤ، عالم موجود، گردوپیش کی دنیا کو جاننے کی کوشش کرو اور دنیا میں اپنا پیغام اور مشن عام کرنے کی کوشش میں مگن رہو اسی طرح تم دنیا میں جانے اور پہنچانے جاؤ گے اور تمہارا آوازہ بلند ہو گا۔ کائنات کا نظام، وحدت کا مظہر ہے اس دنیا میں وحدت سے ہی زندگی قائم ہے۔ ’’ اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی کیساتھ پکڑے رکھو، الگ الگ راستے اختیار مت کرو‘‘ (آل عمران 103-3)
رنگ، زبان، نسل، وطن اور ذات پات پرانے بتوں سے نجات حاصل کرو دور جاہلیت کی نفسانی خواہشات اور رسم ورواج سے پناہ مانگو جاہلیت کی ان رسموں کی قیمت اور حقیقت جُو کے دو دانوں کے برابر بھی نہیں ہے تازہ آرزوؤں کی نقش بندی کرو۔ آخری دین جس کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ‘‘ (المائدہ 3-5) انسان کی زندگی، آرزو پر بنیاد اور اساس رکھتا ہے اپنے آپ کواپنی پاکیزہ تمناؤں اور اعلیٰ آرزوؤں کے حوالے سے پہنچانو جیسے معروف اور متد اول قول ہے:
دُنیا بہ اُمید قائم است!
مومن اور بندہ حق کی امید اور تمنا اللہ کی رضا، خوشنودی اور اسکے دین کی سربلندی، دنیا کی کامرانی اور آخرت کی فلاح ہے اس کیلئے اللہ کا بتایا ہوا راستہ اختیار کرنا ہی مطلوب و مقصود ہے۔ انسان کی آنکھیں، کان، ہوش و حواس، آرزو سے ہی متحرک اور زندہ رہتے ہیں یہ مشت خاک، اولادِ آدم، آرزو سے ہی لالہ خیز بن جاتی ہے۔ ایسی مٹی جس میں گل لالہ اُگتے اور نشونما پاتے ہیں جس انسان نے آرزوؤں اور تمناؤں کے بیج اپنے دل کی کھیتی میں نہ بوئے وہ پتھروں اور اینٹوں کی طرح دوسروں کی پامالی کا شکار اور نشانہ بنتا ہے۔ نیک تمنائیں، بلند ارادے اور مقصد زندگی کے حوالے سے خوش آئند آرزوئیں، ہر بادشاہ اور سردار کا سرمایہ حیات ہیں۔ آرزو ہر فقیر کیلئے جامِ جہاں بین کی حیثیت رکھتی ہے انسان جو آب و گل کا مجسمہ ہے اسکو آرزو ہی انسان بنا دیتی ہے۔ آرزو ہم کو اپنی پہچان اور شناخت بتا دیتی ہے آرزو آگ کی چنگاری کی طرح ہمارے جسم سے بلند ہوتی ہے اور ایک خاک کے ذرے کو آسمان وسعت اور پنہائی سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ آذر کی اولاد نے کعبہ تعمیر کیا ایک نگاہ خدا شناس و خدابین نے خاک کو اکیسر بنا دیا تم بھی اپنے بدن میں خودی پیدا کرو اوراپنی مشت خاک کو اکیسر بناؤ۔
کابل میں شاہِ افغان اور اقبال:
افغانستان کے سفر کے دوران میں اقبال کابل کے شہر میں وارد ہوتے ہیں اور بادشاہِ وقت کے دربار میں ملاقات کیلئے آتے ہیں۔ اپنے کام میں سب سے پہلے وہ کابل شہر کی تعریف کرتے ہیں اس پورے خطے میں کابل جنت کی مانند ہے اسکے انگوروں سے آبِ حیات جیسا رس حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مرزا صائب جو ایران کے مشہور و معروف شاعر تھے انکے بارے میں تاریخ بتا رہی ہے کہ غنی کشمیری کے کلام میں کرالہ پن کے معنی دریافت کرنے کیلئے وہ ایران سے کشمیر آئے تاکہ غنی کشمیری سے اس کشمیری لفظ کے معنی دریافت کریں۔ اقبال کابل کے بارے میں صائب کے شعر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں صائب نے کہا ہے …ع
خوشا وقتے کہ چشمم از سوادش سرمہ چیں گردد‘‘
(جاری ہے)