سجاد طافو کی ریڈیو پاکستان پر بطور کمپوزر خدمات

ریڈیو پاکستان نشروصوت کا بڑا قومی ادارہ ہے جس کا ہر کام کرنے کا ایک ڈھنگ، ایک طریقہ، ایک اصول اور ایک ولولہ ہے، جس کے تحت ضابطے کے مطابق قومی خدمات انجام دینے میں دن رات کوشاں ہے ایک زمانہ تھا جب یہاں علم و فن کے پھول کھلانے والوں کا طوطی بولتا سنائی دیتا تھا لیکن آج کل چُوری کھانے والے زیادہ اور خوشنما بولیاں بولنے والے لفظوں کے ساتھ کھیل کر دل کے تار ملانے اور ذہنی سکون پہنچانے والے کم کم ہی سنائی دے رہے ہیں آج کے جدید دور میں ترقی یافتہ ممالک نے الیکا اور کی بورڈ تو بنا لئے ان میں مختلف سازوں کی آوازیں بھی موجود ہیں لیکن ان کی آوازوں میں وہ سحر سنائی نہیں دے رہا جو انڈو پاک کے استاد گھرانوں کے سازوں اور آوازوں میں ہوا کرتا تھا لیکن دنیا میں کسی چیز کی کمی بھی نہیں آج میں ایک ایسے استاد گھرانے کے ایک فرزند مسٹر سجاد طافو گٹارسٹ کا ذکر کر رہا ہوں جن سے چند دن پیشتر لاہور پریس کلب میں ملاقات ہوئی تھی۔ سجاد طافو آج کل فلم، ٹی وی چینلز  کے علاوہ ریڈیو پاکستان میں بطور میوزک  کمپوزر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں پچھلے دنوں انہوں نے حامد علی خاں  اور حمیرا چنا کی آوازوں میں جو گیت ترتیب دے کر ریکارڈ کروائے ریڈیو پاکستان کو ان کا بہت اچھا ریسپانس ملا محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور فن کسی کی میراث  نہیں ہوتا جستجو  کا صلہ ضرور ملتا ہے، سجاد طافو کو عارفانہ کلام سے جنون کی حد تک لگائو ہے ۔ جب وہ عارفانہ کلام کے عروس کا گھونگھٹ  کھول کر چہرے سے نقاب الٹتا ہے تو علم موسیقی کا رخ زیبا آنے  پر سروں کا چمن کھل اٹھتا ہے اور لوگ جھومنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اسی خوبی کی بنا پر لاہور پریس کلب نے انہیں اعزازی  ممبر شپ سے نواز رکھا ہے جہاں وہ صحافی  حضرات کی نظروں میں محترم بنا ہوا ہے اور وہاں خوشی کی ہر تقریب میں گٹار کے سروں میں سحر ہو کر داد وتحسین حاصل کرتا سنائی دے رہا ہوتا ہے اور یہی استاد گھرانوں کے فن کی خوبی ہے، اسی خوبی کو مدنظر رکھتے ہوئے الحمرا آرٹ کونسل میں بھی دو گھنٹے  کی کلاس لے رہا ہے۔  جہاں ان کے شاگردوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے، شعرونغمے  کا سرور کسی دکان سے نہیں خریدا جا سکتا یہ درد دل رکھنے والوں کی دنیا ہے اسے وہی سنبھال سکتے ہیں جنہوں نے اس سے عشق کیا وہ زندگی بھر اسی کے ہو گئے اور اسی کے رنگ میں کھو گئے یہ علم و فن بادشاہوں سے لے کر راجوں، مہاراجوں اور جاگیرداروں کی چیرا دستیوں سے منہ موڑ کر ان کی شان و شوکت  کو چھوڑ کر، دولت کی زنجیریں توڑ کر، عارفوں کے کلام سے ناطہ جوڑ کر جب سازوآواز  کے سنگ عوام کے سامنے ریڈیو نشریات کے ذریعے  کانوں کے پردوں سے ٹکرایا تو عوام کے منہ سے یہ صدا گونجی واہ سبحان اللہ، اللہ باقی من کل فانی  عارفانہ کلام تحریر کرنے والوں نے خدا کی وحدانیت کا بول بالا کیا اور لوگ دیوانہ وار آج بھی اس کے شیدائی سنائی دیتے ہیں، مسٹر سجاد طافو نے کئی سرکاری اور غیر سرکاری محفلوں کے علاوہ امریکہ جیسے ملک میں گٹار بجا کر اپنے ملک کا نام روشن کیا اور دیگر یورپی ممالک آج بھی اس کی آمد کے منتظر ہیں فن موسیقی فطرت کی طرح لازوال فن ہے۔ دنیا کے ریڈیو، فلم، ٹی وی چینلز، تھیٹر اور نجی محفلوں کے ساتھ شادی، محفل سماع اور افواج سب میں میوزک کی دھنیں سنائی دیتی رہتی ہیں دیگر مذاہب اپنی عبادت گاہوں میں گیت سنگیت کے ساتھ عبادت میں مصروف سنائی دیتے ہیں  دنیا میں آج  بھی سات سروں کا سحر سر چڑھ کر گونجتا سنائی دے رہا ہے۔ مسٹر سجاد طافو نے مزید کہا کہ ملک صاحب میں تو اس قابل نہ تھا لیکن میری ماں کی دعائیں میرے ساتھ ہوتی ہیں جن کی وجہ سے میں اس قابل ہوا ہوں کہ لوگ آج بھی مجھ سے سیکھنے کے متمنی  سنائی اور دکھائی دیتے ہیں  لیکن لاہور، پریس کلب، الحمرا آرٹس کونسل اور ریڈیو پاکستان کی مصروفیت کی وجہ سے میرے پاس ٹائم کم ہوتا ہے بعض اوقات دوستوں سے معذرت کرنی پڑ جاتی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن