غربت،مہنگائی اور بیروزگاری کے ڈسے ہوئے افرادکا کوئی پُرسان حال نہیں

آج کل انسان میں تحمل اور برداشت کم ہے خودکشیوں کے  واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ سہیل آباد کا علی اختر کپڑے کی فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا جو بجلی کی بد ترین لوڈ شیڈنگ کے باعث بند ہوگئی اور فیکٹری کے مالک نے تمام ملازمین کو فار غ کردیا۔ حکومت کی طرف سے  لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ دعوے کئے جارہے ہیں لیکن حکومت بجلی کابحران ختم کرسکی  اور نہ ہی مہنگائی پرقابو پایاگیا۔ حکومت کی کوششوں سے ڈالر کی قیمت ضرور نیچے آئی ہے لیکن مہنگائی میں کمی نہیں آئی ، سفید پوش طبقے کی قوت خرید ختم ہو کررہ گئی ہے جبکہ تنخواہ دار طبقہ بھی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرتا ہوا نظرآتاہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث لوگوں کو چھوٹی موٹی ملازمتیں بھی نہیں ملتیں۔ صنعتوں سے سینکڑوں ہزاروں گھرانوں کا روز گار وابستہ ہے ۔ علی اختر بھی بیروزگار ہوگیا اور جب اس کے گھر میں فاقے ہونے لگے تو اس نے زہریلی گولیاں کھا کر خود کو غم روزگار سے نجات دلانے کیلئے ابدی نیند خود پر طاری کرلی۔ سرگودھاروڈ کی مسز حماد عباس نے بھی گھرمیں بیروزگاری اورغربت کے باعث شوہر سے آئے روز ہونے والے جھگڑوں سے تنگ آکر خودکشی کرلی ہے۔ جہلم میں گھریلو حالات سے دلبرداشتہ شادی شدہ خاتون طاہرہ زینب نے تیزاب پی کر موت کو گلے لگا لیاہے ،اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ غربت کے باعث مہنگائی کے اس دور میں گھر چلانادشوار ہوگیاہے اور اسے مسائل کے بھنور سے نکلنے کیلئے کوئی اور راستہ نہیں ؟ چک نمبر546گ ب کے لیاقت نے غربت سے تنگ آکر پہلے تو اپنے نوزائیدہ بیٹے کو فروخت کرناچاہا لیکن کوئی خریدار نہ ملا تو اس نے خود کو زندگی سے اوجھل کرلینے کافیصلہ کرلیا ۔پہلے اپنے بیٹے کا گلہ گھونٹا اور پھر پولیس کے پاس جا کر پس دیوار زنداں چلاگیا۔ وہاں کوئی اس کے گھر کے بجھے ہوئے چولہے کے حوالے سے اس سے باز پرس نہیں کرتا اور اسے روزگار نہ ملنے کے باعث بھوکے سوجانے کا اندیشہ بھی نہیں ہے۔ سدھوپورہ کے اشرف نے بھی اپنی اہلیہ سے باز پرس سے تنگ آکر اپنی کم آمدنی سے مہنگائی کو مات نہ دے پانے پر خود کو پٹرول چھڑک کراپنے آپ کو آگ لگا لی ہے۔ایک نواحی گائوں کی نوجوان لڑکی ملتان میں اپنے رشتہ داروں کے پاس یہ سوچ کر گئی کہ ان کی مددسے اسے کوئی روزگار ملے گالیکن وہاں طعنوں کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ اس نے فلائی اوور سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کاخاتمہ کرلیاہے۔ ڈسکہ کی شمائلہ بی بی جو دوبچوں کی ماں تھی اس کا اپنی ساس اور نند سے ہمیشہ گھریلو حالات اور تنگدستی پر جھگڑا رہتا ۔ اس کی ساس اور نند نے اسے نحوست زدہ قرار دے کر  زدو کوب کیا تو اس نے زہریلی گولیاں کھا کر زندگی کا خاتمہ کرلیا ۔ملک میں خودکشی ، خود سوزی کاارتکاب کرکے مرنے والوں کی کمی نہیں لیکن میں نے محبت میں ناکامی یا پسند کی شادی نہ ہونے پر رونما ہونے والی کسی خودکشی کو اپنے ہاتھوں اپنے موت کا سامان کرنے پر اپنے کالم کا موضوع نہیں بنایا اور نہ ہی کسی ایسے طالب علم کی خودکشی کاتذکرہ کیاہے جس نے محض سکول کالج کی امتحان میں ناکام ہو کر‘ والدین کے ڈانٹنے پر یا دوستوں کا سامنا کرنے کی ہمت کے فقدان کے باعث خودکشی کی ہو۔ میں نے غربت اور بیروزگاری کے حوالے سے ان واقعات کو ایک تحریر کی لڑی میں پرویا،میرامقصد حکمرانوں کوتوجہ دلانا ہے کہ عام آدمی ‘ بیروزگاری سے کس قدر تنگ ہے۔حکمرانوں کو لوڈشیڈنگ سے بندہونے والے کارخانوں کے محنت کشوں کے حالات سے دلبرداشتہ ہوکر موت کوگلے لگانے والوں سے کیا تعلق‘گزشتہ حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کرکے اپنی پارٹی کی جیالیوں اور جیالوںکومستقل طورپر نوازنے کاایک سلسلہ شروع کیاتھا۔ موجودہ حکومت نے اس پروگرام کو نہ صرف جاری رکھاہے بلکہ 90فیصد ’’وظیفہ خوار‘‘ وہی ہیں جن کاانتخاب بالکل بھی سیاسی بنیادوں پر کیاگیاتھا اب بھی ملک کے مقتدر حلقوں میں غربت کے خاتمہ کیلئے اس کلیہ کا پرچار کیاجاتاہے کہ غریبوں کو امداد ی فنڈ کے نام سے دو یا تین ہزار روپے ماہانہ اداکردیئے جائیں اور بیروزگاروں میں بلاسود ادھار کی رقوم تقسیم کی جائیں جس سے وہ کاروبار کرکے عزت کی روٹی کماسکیں  اس طرح وہ پاکستان میں غربت کاخاتمہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہ تمام منصوبے کسی سراب سے مختلف نہیں ۔ غربت ‘ بیروزگاری اورمہنگائی کے ڈسے ہوئے افراد کی خودکشی کے واقعات سے مترشح ہے کہ ملک میں غربت کے خاتمہ کیلئے کثیر الجہتی عملی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پنجاب حکومت نے بظاہر مہنگائی سے نبردآزما ہونے کیلئے ’’سہولت بازار‘‘ بنادیئے ہیں لیکن سہولت بازاروں کے قیام کی منصوبہ بندی کرتے وقت یہ نہیں سوچا گیا کہ خریداری کیلئے بھی لوگوں کے پاس روپیہ ہوناچاہئے ۔حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ پاکستان میں40فیصد سے زائد آبادی خط غربت کی انتہائی نچلی سطح سے نیچے کی زندگی بسر کررہی ہے اور اس طبقے کے پاس کسی سہولت بازار جانے کی ہمت نہیں۔  موسم گرما کی آمد آمد ہے لیکن جب ملک میں موسم سرماآرہاہوتاہے تو ملک کے پچاس فیصد عوام میں سردی کے کپڑے خریدنے کی طاقت نہیں ہوتی اور وہ سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کرکیڑے مکوڑوں کی طرح مرنا شروع ہوجاتے ہیں ۔بچوں کو لنڈا بازار میں فروخت ہونے والی گوروں کی اترن سے ڈھانپنا بھی محال ہو جاتاہے کیونکہ مہنگائی تولنڈے بازار میں بھی بہت زیادہ آنے لگی ہے۔اب ڈینگی مچھر کی یلغار بھی ہونے والی ہے اور مفلس وفادار لوگ اب مچھروں کے کاٹنے سے ہونے والے بخار سے مرنا شروع ہوجائیں گے۔ ہمارے ملک میں جعلی اشیائے خوردنی تو فروخت ہوتی ہی ہیںلیکن اب  لوگ صرف ملاوٹ شدہ غذائوں سے ہی بیمار ہو کر نہیں مرتے بلکہ ان کی بے وقت موت کا سبب جعلی ادویات ہیں جو اکثر میڈیکل سٹوروں پرفروخت ہوتی ہیں۔ ایک طرف ہمارے لوگ بیروزگاری‘ غربت اور مہنگائی سے تنگ آکر خودکشیاں کررہے ہیں اور دوسرے طرف ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں میں زیادہ سے زیادہ مراعات کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اس ملک کا چھوٹا تنخواہ دار طبقہ‘ نیا بجٹ آنے سے پہلے ہی اس خوف میں مبتلا ہے کہ حکومت ٹیکسوں میں اضافہ سے مہنگائی کاگراف تو یقینا اونچا کرے گی لیکن تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافہ نہیں کیاجائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق سرکاری ملازمین کیلئے نئے قومی بجٹ میں کچھ نہیں ہوگالہٰذا ایک طرف آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن اورمختلف سرکاری اداروں کے گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ بجلی اور گیس کے نرخوں میں نت نئے اضافے کیخلاف ہڑتالیں کررہے ہیں‘ ریلیاں نکال رہے ہیں اور دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں ارکان اسمبلی تنخواہوں میں اضافے کی قرارداد منظور کرلی گئی ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ کس کو چاہئے ۔اسمبلیوں کے ارکان اور ملک کے وزیروں ومشیروں کو یا نچلے طبقے کو؟میں سیاستدانوں کی کبھی ختم نہ ہونے والی بھوک اور کبھی نہ ختم ہونے والی سیاسی چالیں دیکھ کر اکثر سوچتا ہوں کہ ان کی اکثریت‘ ریٹائرمنٹ کی عمر سے بڑھتی عمروں والے افرا دپرمشتمل ہے ۔  کرپشن‘ بدعنوانی‘ سرکاری فنڈز کے استعمال میں کمیشن اور کالے دھن کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹ سب سے طاقت ور مقام پر بیٹھ کر بھی ملک کے سب سے کمزور لوگوں کے حق پرہاتھ صاف کرناشروع کردیتے ہیں۔غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں ایسے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک ماں اپنے نوزائیدہ بیٹے کوفروخت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اپنے ڈاکو شوہر کی ضمانت کراسکے۔ ایک باپ اپنے نوعمر بیٹے کا خود گلہ دبا دیتاہے کہ وہ مہنگائی کے باعث اس کی پرورش نہیں کرسکتا اور ایک نوجوان اس لئے خودکشی کرلیتاہے کہ ا سکی فیکٹری کے مالک نے آئے روز کی بجلی کی لوڈشیڈنگ سے تنگ آکر فیکٹری کو بند کرکے اس میں کام کرنے والوں کو بیروزگار کردیاہے اور اس نوجوان کے پاس اپنے گھر کا چولہا روشن رکھنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی ہے توکیا اس تمام صورتحال کے ذمہ داری ملک کے حکمران نہیں ہیں؟

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...