نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعدکسی فارمولے اور کسی تجزیئے کی رو سے حکومت اور فوج میں محاذ آرائی کا امکان نہیںتھا۔جنرل راحیل شریف کو کیوں منتخب کیا گیا، اس فیصلے کے میرٹ کا اندازہ وزیر اعظم یا ان کے صلاح کاروں کو ہوگا۔عام آدمی یہی خیا ل کر رہا تھا کہ ایک تو وزیر اعظم نے ان جرنیلوں کو منتخب نہیں کرنا تھا جن کے ساتھ ان کا جھگڑا ہو چکا ہے، دوسرے راحیل شریف کی شہرت ان کے نشان حیدر پانے والے بھائی میجر شبیر شریف سے تھی۔اسی خاندان میں ایک نشان حیدر اور بھی تھا اور پینسٹھ کی جنگ کے حوالے سے قوم کا بچہ بچہ ان کی عزت کرتا ہے ، وہ ہیںمیجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر۔ وزیر اعظم کا یہ بھی خیال ہو گا کہ آخری نمبر سے ترقی پا نے کی بنا پر جنرل راحیل شریف ان کے ممنون بھی ہوں گے۔یہ وہی نکتہ ہے جو بھٹو نے ضیا الحق اور نواز شریف نے جنرل مشرف کو منتخب کرتے ہوئے مد نظر رکھا تھا۔ایک فیکٹر جس کا ذکر کسی نے نہیںکیا، وہ ہے راحیل شریف کا کشمیری ہونا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے ارد گرد زیادہ تر کشمیری جمع ہیں، اسحا ق ڈار اور خواجہ آصف سے لے کر خواجہ سعد رفیق تک۔تخت لاہور پر تو ہر طرف کشمیری براجمان ہیں۔
مگر سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اس لئے کہ نواز شریف تو وہی تھے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مسئلے پر فوج نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور امن کو موقع دینے کے نظریئے کی حمائت کی۔اس دوران فوج کو بہت مار پڑی اور ایک جرنیل کی شہادت بھی ہوئی۔منور حسن اور فضل الرحمن نے فوج کے شہیدوں کی تحقیر بھی کی۔فوج نے منور حسن سے معافی کا مطالبہ کیا مگر جماعت اسلامی کی شوری اپنے امیر کے پیچھے ڈٹ گئی اور الٹا وزیر اعظم سے کہا کہ فوج کے خلاف کاروائی کی جائے۔
یہ فوج کی پہلی کھلی شکست تھی۔
جنرل مشرف پر غداری کا کیس چلا۔فوج نے اپنے سابق آرمی چیف کو عدالت میں حاضری سے بچانے کے لئے اپنے ہسپتال میں داخل کر لیا۔دنیا بھر میں پیشی سے بچنے کے لئے ہر ملزم مختلف ہتھکنڈے اختیار کرتا ہے، یہ کوئی انہونی نہیں تھی مگر فوجی ہسپتال، فوجی ڈاکٹروں اور خودجی ایچ کیو کے خلاف طعنوں کا طوفان چل پڑا۔اسی دوران وزیر دفاع نے فوج کے ایک اہل کار کے خلاف پرچہ درج کروایا، ایک ٹی وی انٹرویو میں فوج کے خلاف ریمارکس دیئے، ٹی وی چینلز میں ہر طرح کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ، انہوں نے وزیر دفاع کی ایک پرانی وڈیو چلا دی جس میں وہ فوج کو بے نقط سنا رہے تھے۔ وزیر ریلوے بھی میدان میں آن دھمکے۔نوائے وقت کے اتوار کے اداریئے میں ان دونوں صاحبان کے پر مغز نکات بیان کر دیئے گئے ہیں ، میرا حوصلہ نہیں پڑتا کہ انہیں یہاں دہراﺅں کہ فضا پہلے ہی مکدر ہے۔
حکومت اور اس کے وزرا جو کچھ کہہ رہے تھے اور کر رہے تھے، ہو سکتا ہے وہ اس میںحق بجانب ہوں۔مگر غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے نئے آرمی چیف کے مزاج کو سمجھنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔میں نے ان کالموں میں کھلے اشارے کئے ۔ مگر کالم اور الم غلم کوئی پڑھنے کا تردد ہی نہیں کرتا۔بہر حال ایک بات یہاں پھر دہراتا ہوں کہ آرمی چیف نے سلیمانکی سیکٹر کا دورہ کیا۔ یہ محاذ ان کے لئے جذباتی حیثیت رکھتا ہے، وہاںان کے بڑے بھائی داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے تھے اور انہوںنے بھارتی علاقے میں پیش قدمی کرتے ہوئے معرکہ سبونہ کے ہیرو کا درجہ پایا۔جنرل راحیل شریف نے سلیمانکی میں ایک کھلے دربار سے خطاب کیا۔نئے اور پرانے، سبھی فوجی جمع تھے۔ جنرل نے ایک ہی نکتے پر زور دیا کہ وہ پاک فوج کے وقار پر حرف نہیں آنے دیں گے۔اسی بات کو انہوں نے تربیلا میں کمانڈوز بیس پر اپنے خطاب میں دہرایا۔میرا احساس یہ ہے کہ وہ میڈیا پر شورو غوغا سے نکو نک آ چکے تھے۔انتہائی اختصار مگر بلاغت کے ساتھ انہوںنے اپنے ما فی ا لضمیر کا اظہار کیا۔کور کمانڈرز کے اجلاس میں بھی یہی جذبات دیکھنے کو ملے گو اس سلسلے میںکوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا اور مصلحت کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ فوج اپنا نکتہ نظر بیان کر چکی، اب اسے خاموش رہ کر حالات میں بہتری کا انتطار کرنا تھا۔
خدا کا شکر ہے کہ حکومتی صفوں کو اپنی غلطی کاا حساس ہو گیا۔ غلطی یہ تھی کہ مشرف کے مقدمے کی آڑ میں فوج کو بحیثیت ادارہ ہدف تنقید بنایا جارہا تھا۔ یہ ایک بیرونی ایجنڈہ تھا۔حکومت اس ٹریپ سے باہر نکل آئی۔ خیر سگالی کے اشارے ملے اور ایک خوشگوار ماحول میں وزیر اعظم اور آرمی چیف نے کاکول کا رخ کیا۔
بہار کی خوشبووں سے لبریز ماحول میں وزیر اعظم نے دل کھول کر فوج کے کردار کی تحسین کی۔ مور اوور ،انہوںنے جنرل راحیل کی شان میںڈونگرے بھی برسائے اور یوں پاکستانیوںنے سکون کا سانس لیا کہ ایک سنگین سازش دم توڑ چکی تھی۔
اتفاقات ہیں زمانے کے۔ اور خاص طور پر تھامس ہارڈی کے قارئین جانتے ہیں کہ تقدیر کس طرح ایک سو اسی ڈگری کا موڑکاٹتی ہے۔
کاکول کے الفاظ ابھی فضا میں تحلیل بھی نہ ہونے پائے تھے کہ قوم کے اعصاب پر ایک نئی بجلی آن گری۔یکا یک پہلے سے زیادہ پر خطر اور شوریدہ سر طوفان نے سر اٹھایا۔فوج ایک نئے بحران کی زد میں تھی۔ اب فوج کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ اس کا اصل حریف کون ہے، کیا بھارت اس کے مد مقابل ہے، کیا ا سے دہشت گردوں کا سامنا ہے۔ کیا اسے امریکی چالوں سے نبٹنا ہے،یااسے آگے چل کر افغانستان کے تلاطم کوٹھنڈا کرنا ہے۔
کاکول نے مطلع بالکل صاف کر دیا تھا مگر اب ہر طرف دھول ہی دھول ہے۔دوست اوردشمن کی تمیز باقی نہیں رہی۔حالیہ اپریل کے موسم کی طرح پاکستان کا مطلع کالی سیاہ گھٹاﺅں میں گھرا ہوا ہے۔ یا کوئی لاوا ہے جو پھٹ پڑا ہے۔اس ملک میں قتل و غارت کوئی نئی بات نہیں۔پہلے وزیر اعظم شہید ہوئے، پہلے منتخب وزیر اعظم پھانسی چڑھے، ایک فوجی ڈکٹیٹر کا جہاز ہوا میں پھٹ گیا، محترمہ بے نظیر کو ایک ہجوم کے سامنے شہید کر دیا گیا، پچھلے دس بارہ برس میں ساٹھ ہزار پاکستانی جو بالکل بے گناہ تھے، زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ان کے ہونٹوںپر ایک ہی سوال تڑپ رہا ہے کہ ہمیںکس جرم کی پاداش میں شہید کیا گیا۔بے بس لوگ دو دو سو لاشیںلے کر یخ آسمان کے نیچے رکھ کر احتجاج کرتے رہے مگر کبھی یوں نہ آسمان گراتھا ، نہ زمین شق ہوئی تھی۔ مگر کاکول سے نکلنے کے بعد جو شام آئی ، وہ طویل ہوتی چلی جا رہی ہے، اندھیرے پھیلتے جا رہے ہیں۔
تاریخ میں ہمارے جیسی بد نصیب کوئی قوم نہیں آئی جس نے اجتماعی خود کشی کا تہیہ کر رکھا ہو۔ ہم نے ایکدوسرے کا گریبان پکڑلیا ہے۔ ہر شخص نے جسم پر خود کش جیکٹ پہن رکھی ہے اور ہماراخیال ہے کہ بٹن دبائیں گے تو فریق مخالف ہی کے چیتھڑے اڑیں گے۔اور تاریخ میں ایسا بھی کم ہوا ہے کہ کسی قوم کو اپنی تباہی کے لئے بیرونی دشمن کی ضر ورت نہ ہو، ہم اس معاملے میں بھی خود کفیل ہیں۔
دعا کریں کہ کوئی مسیحا آسمانوں سے اترے۔