گذشتہ چند ہفتوں سے پاک فوج اور نواز حکومت کے درمیان دونوں طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے ہیں جن سے بجا طور پر خواص و عوام کو ملک میں ایک اور مارشل لاءکی آہٹ محسوس ہو رہی ہے۔ اس تنا¶ پر غیر ملکی اخبارات میں بھی تبصرے اور جائزے پیش کیے جا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت چار قسم کے مسائل ہیں جہاں فوج اور حکومتِ وقت میں عدم اعتماد کی فضاءجنم لے رہی ہے۔ ان میں سب سے پہلا معاملہ مشرف غداری کیس ہے جو دن بہ دن الجھتا چلا جارہا ہے۔ فوج کو تحفظات ہیں کہ ان کا سابق سپہ سالار اور ملک کا سربراہ اس بدنام زمانہ کیس میں نامزد کر دیا گیا ہے جس سے اس اعلی ترین قومی ادارے کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔ حکومت نے مشرف کی بیرونِ ملک روانگی کی اجازت عدلیہ کے کندھوں پر ڈال کر اپنی پوزیشن بچانے کی کوشش کی تھی مگر لگتا ہے کہ ”اندرونی“ اور بیرونی دبا¶ کے سامنے حکومت کو کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہی پڑیگا۔ ویسے بھی غداری کے اس نامزد ملزم کو اسلام آباد سے غیر معمولی شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ کراچی پہنچا دیا گیا ہے جہاں سے دبئی کا سفر آدھا رہ جاتا ہے۔
دوسرا متنازع اور حساس ترین ایشو حکومت اور طالبان امن مذاکرات ہیں۔ حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹیوں میں سے کسی کے پاس فیصلہ کن اختیارات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی واضح صورتِحال سامنے نہیں آسکی۔ مذاکراتی کاروائی میں حکومت مغلوب فریق کے طور پر شریکِ گفتگو رہی جبکہ طالبان کی کمیٹی مطالبات پر مطالبات منوانے کی کوشش کرتی رہی اور طالبان کو ماورائی اور فاتح فوج کے طور پر پیش کر کے ناقابلِ تسلیم مطالبات منوانے کی کوشش کرتی رہی۔ خصوصاً اپنے نظر بند لوگوں کی فہرستیں دے کر انکی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ اور ”پیس زون“ حاصل کرنے کی خواہش۔ فوج ان دونوں مطالبات کے ممکنہ نتائج سے مطمئن نہیں۔ فوج بجا طور پر ایسے لوگوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی جن کے ہاتھ فوج سمیت بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگین ہیں۔ اسی طرح کوئی خطہ¿ زمین طالبان کے سپرد کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ انہیں پوری آزادی کے ساتھ ملک دشمن کاروائیوں کے لیے تیاری کا محفوظ راستہ اور موقع فراہم کر دیا جائے، جسے وہ بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بعد ازاں ملک کے مسائل میں مزید اضافہ کرتے رہیں اور فوج بیرونی خطرات سے منہ موڑ کر ان آئین دشمن جنگجو¶ں سے نبرد آزما رہے۔
تیسرا معاملہ جس پر فوج اور حکومت ایک پیج پر نہیں وہ بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدات ہیں۔ اس میں تو دو رائے نہیں کہ نواز حکومت نے سب سے پہلے بھارت کے ساتھ اعتماد بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ اسی ضمن میں نرم شرائط پر لین دین کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں۔
جب تک بھارتی خارجہ پالیسی پاکستان کے ساتھ برابری کی سطح پر معاملات کی مخلصانہ کاوشوں پر کاربند نہیں ہو جاتی اس وقت تک اس سے تجارتی لین دین اور محبت کی پینگیں بڑھانا اپنا وقار اور قومی غیرت تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
مندرجہ بالا تین حساس معاملات کے ساتھ ایک چوتھا ایشو بھی آج کل اہمیت اختیار کر گیا ہے اور وہ ہے مسنگ پرسنز کی بازیابی کا۔ مقامی آبادی کے بقول جو لوگ خفیہ اداروں نے اغوا کیے، عدالتی احکامات اور میڈیا کے شور و غل کے باوجود ان کی ذمہ داری کوئی نہیں اٹھا رہا۔ عدالتِ عظمیٰ نے بارہا حکومت کے ذمہ داروں کو طلب کیا مگر حکومت نے مصلحتاً خاموشی اختیار کر رکھی ہے کیونکہ حکومت کے بقول اس میں ”پردہ داروں“ کے نام آتے ہیں۔ افواج پاکستان کے نمائندگان سے جب بھی اس سلسلے میں بات ہوئی انہوں نے ملکی قانون اور عدالت کو قصور وار ٹھہرایا اور افسوس کے ساتھ بجا طور پر گلہ کیا کہ آج تک ملک کی کسی عدالت نے کسی ملک دشمن دہشت گرد کو قانونی گرفت میں نہیں لیا۔ دو دو تین سال قید میں رہنے کے باوجود انکی ضمانتیں ہو جاتی ہیں اور یہ لوگ واپس جا کر پہلے سے زیادہ تباہی کا سامان کرتے ہیں۔ ان خدشات کا خاتمہ تو فی الحال ممکن نہیں کیونکہ حکومت اور اسکے نامور وزراءخود ”دودھ پینے والے بِلّے“ کو لٹکانے کا شوق رکھتے ہیں۔ ہماری حکومت چونکہ ترکی سے بہت متاثر ہے اس لئے دیگر اقدامات کے ساتھ وہ فوج پر قابو پانے کے معاملے میں بھی ترکی ماڈل کی مثال دیتے ہیں۔ گذارش ہے کہ ترکی کے مردِ عزیمت رجب طیب اردگان نے مسلسل تین ادوارِ حکومت میں موجودہ پوزیشن حاصل کی ہے۔ ترکی اور پاکستان کے داخلی اور خارجی مسائل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ترکی دس سال کے اندر دنیا کی دوسری بڑی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کا درجہ حاصل کر چکا ہے جبکہ پاکستان جان لیوا مسائل کے پہاڑوں کے نیچے دبا ہوا ہے۔ ان مسائل میں زیادہ تر کا تعلق سیکیورٹی سے ہے جہاں فوج کا کردار ہی فیصلہ کن ہے۔ ترکی کی فوج، عوام اور سیکیورٹی ایجنسیاں ایک ہی پیج پر ہیں جبکہ ہمارے ہاں سیاسی سماجی تعلیمی اور صوبائی تعصبات کی بلند وبالا دیواریں کھڑی ہیں۔ ہر شخص، ہر ادارہ اور ہر صوبہ ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیکر صفحہ ہستی سے ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ قوم پریشان حال بھی ہے اور منتشر الخیال بھی۔ ایسے میں حکومت کو افواج پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی ضرورت ہے نہ کہ ترکی ماڈل حل تلاش کرتے ہوئے فوج کو مسخر کرنے کی خطرناک کوشش۔