کراچی کی سیاست اس وقت پورے پاکستان کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم کیلئے گزشتہ ڈیڑھ ماہ نہایت ہنگامہ خیز رہے ، 11 مارچ کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے اور وہاں سے سزا یافتہ مجرموں کی گرفتاری ، صولت مرزا کے اعترافی بیان، منی لانڈرنگ کیس میں الطاف حسین سے لندن پولیس کی تفتیش، عزیز آباد سے عمران فاروق قتل کیس کے ماسٹر مائنڈ معظم علی کی گرفتاری اور این اے 246 میں ضمنی الیکشن ، لندن سے عزیز آباد تک ایم کیو ایم کیلئے یہ سخت آزمائش کا وقت ہے۔ ان تمام مشکلات کا آغاز لندن میں عمران فاروق قتل کیس سے ہوا ۔اس کیس کی تفتیش کیلئے جب لندن میں پولیس نے پانچ دسمبر 2013 کو متحدہ قومی موومنٹ کے دفتر اور الطاف حسین کے گھر پر چھاپے مارے تو وہاں سے تقریبا 4 لاکھ 75 ہزار پاونڈ برآمد ہوئے۔ یوں قتل کیس کے ساتھ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے مقدمات بھی کھل گئے اور اسکے بعد تحقیقات کے دوران تین جون 2014 کو پولیس نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتار کر لیا۔ سات جون کو انھیں تفتیش کے بعد اپریل 2014 تک ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ اب ایک بار پھر الطاف حسین کی ضمانت میں جولائی 2015 تک توسیع کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کیس ابھی جاری ہے۔ اس بارے میں پہلی بار وزیر خارجہ چوہدری نثار علی خان نے بالواسطہ تسلیم کیا کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے مقدمے میں محسن علی اور کاشف خان پاکستانی خفیہ اداروں کی حراست میں ہیں، جبکہ اس کیس میں اہم ملزم معظم علی بھی رینجرز کی تحویل میں ہے جس سے تفتیش جاری ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے ایک اور نہایت اہم بات بھی کہی ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے مقدمے میں پاکستان میں گرفتار ہونے والے کسی بھی ملزم کو برطانیہ کے حوالے کیا گیا تو اس کے بدلے میں برطانیہ کو بھی پاکستان کو مطلوب افراد حوالے کرنا ہوں گے۔
نیویارک ٹائمز نے کراچی میں ایم کیو ایم کی مشکلات کے بارے میں لکھا ہے کہ کراچی پر ایم کیو ایم کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے اور شہرسے خوف کی فضا ختم ہو رہی ہے۔ الطاف حسین کو لندن پولیس نے حراست میں لیا اور پھر انہیں جولائی تک ضمانت پر رہا کیا ، مگر کراچی میں زندگی معمول پر چلتی رہی ورنہ اس سے پہلے کراچی چند لمحوں میں بند کروا دیا جاتا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد کو پارٹی کے اندر سے بھی چیلنج کا سامنا ہے۔
لندن میں مقدمات تو عزیز آباد میں این اے 246 کا الیکشن بھی ایم کیو ایم کی بقا کا سوال بن چکا ہے۔ پہلی بار ہے کہ ایم کیو ایم کو ووٹ مانگنے کیلئے گھر گھر جانا پڑ رہا ہے۔ خود الطاف حسین انتخابی مہم کی نگرانی کر رہے ہیں اور جناح گراونڈ پر روز رات کو ان کا خطاب ہوتا ہے ، ووٹروں کو راغب کرنے کیلئے تحریک انصاف کی طرح ایم کیو ایم بھی جناح گراونڈ میں میوزک کنسرٹ کروا رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکن پہلی بار یہ منظر حیرت اور تشویش سے دیکھ رہے ہیں کہ انکے گڑھ عزیز آباد میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف دھڑلے سے انتخابی مہم چلا رہی ہیں ، ایم کیو ایم کے مقابلے میں نعرے لگ رہے ہیں ، انتخابی کیمپ لگے ہیں اور ریلیاں نکل رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کیلئے یہ منظر بالکل نیا ہے اورپہلی بار اس حلقے میں انہیں بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عمران خان خود تحریک انصاف کی انتخابی کی مہم کی قیادت کر رہے تو سراج الحق بھی اس حلقے میں جلسہ کر چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کیساتھ مقابلہ کرتے ہوئے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی ایک دوسرے کے مد مقابل بھی کھڑی ہیں اور شکست کے خطرے کے باوجود ایک دوسرے کے حق میں دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ جہاں ایم کیو ایم کیلئے اپنے گڑھ میں اپنی سیاسی ساکھ کی بقا کا سوال ہے ، وہیں جماعت اسلامی کے لیے بھی کراچی کی سیاست میں زندہ رہنے اور اپنے ووٹ بینک کو بچانے کا مسئلہ درپیش ہے ، جماعت اسلامی کے کئی کارکن کراچی میں شہید ہو چکے ہیں ، اس لیے جماعت کی مرکزی قیادت پر کراچی کے رہنماوں نے واضح کیا ہے کہ ان پر اپنے کارکنوں کا دبائو ہے کہ وہ تحریک انصاف کے حق میں دستبردار نہیں ہونگے کیونکہ وہ اتنے سالوں سے مشکل حالات کے باوجود ایم کیو ایم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔حلقہ این اے 246 سے 1970 سے جماعت اسلامی الیکشن لڑ رہی ہے جبکہ تحریک انصاف تو ابھی پچھلے الیکشن میں سامنے آئی ہے ، اگر جماعت نے تحریک انصاف کے حق میں دستبردار ہی ہونا ہے تو پھر ادارہ نورحق کا کیا فائدہ ہے ؟ دوسری جانب تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ کراچی میں آٹھ لاکھ ووٹ حاصل کر کے دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور پچھلے الیکشن میں اس حلقے سے انکے امیدوار نے 32 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس لیے وہ اس الیکشن کو ہر حال میں لڑیں گے۔ دونوں جماعتیں اپنے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں اور ان کی اس لڑائی کا فائدہ ایم کیو ایم کو ہو گا اور وہ آسانی سے یہ نشست جیت لے گی۔ اسی لیئے ایم کیو ایم بھی جماعت اسلامی کی پیٹھ ٹھونک رہی ہے اور جگہ جگہ یہی کہہ رہی ہے کہ جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم کی پوزیشن عمران اسماعیل کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے اور جماعت اسلامی اس حلقے سے دوسرے نمبر پر آئیگی۔
بارہ اپریل کی دو پہر میں این اے 246 میں گھوم کر جائزہ لے رہی تھی کہ علاقے کے عوام کس کے ساتھ ہیں ، تحریک انصاف کے انتخابی کیمپ میں پہنچی تو وہاں لوگوں کی بڑی تعداد دکھائی نہیں دی۔ کریم آباد ، عائشہ منزل اور لیاقت آباد کی گلیوں میں لوگوں سے بات کی تو انہوں نے ایم کیو ایم کا ہی نام لیا ، کسی کا کہنا تھا کہ اس نے تو ہمیشہ الطاف حسین کو ہی ووٹ دیا ہے اس بار بھی انہیں ہی ووٹ دیگا کسی نے بتایا کہ ایم کیو ایم والے اسکی مالی مدد کرتے ہیں ،کسی کے گھر میں ایم کیو ایم راشن ڈلواتی ہے کسی کو بلدیہ کراچی ، تو کسی کو واٹر بورڈ میں نوکری لیکر دی ہے اس لیے چاہے کچھ بھی ہو وہ ایم کیو ایم کو ہی ووٹ دینگے۔ یہ بھی پاکستانی سیاست کا ایک المیہ ہے جس کا مظاہرہ میں نے رائیونڈ اور گڑھی خدا بخش تک اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ لوگ قومی اور اجتماعی مسائل کے بجائے اپنی ذاتی مسائل کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے لاڑکانہ میں الیکشن سے پہلے جب میں ایک پروگرام کیلئے گلیوں میں لوگوں سے بات کر رہی تھی تو وہاں ننگے پاوں، پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے بچے بھی جئے بھٹو کے نعرے لگا رہے تھے۔ وہاں بھی لوگ اس لیے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں کہ انہیں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے چند سو روپے کا فائدہ ہو رہا ہے یا انہیں کوئی چھوٹی موٹی نوکری مل گئی ہے ، انہیں یہ علم نہیں کہ پارٹی کا منشور اور نظریہ کیا ہے یا ملک کن حالات سے گزر رہا ہے ان بیچاروں کو صرف اپنی دال روٹی سے غرض ہے۔ یہی وجہ ہے ہر بار الیکشن ہوتے ہیں اور حکومتیں بنتی ہیں مگر عوام آج بھی اسی طرح غربت اور محرومی کا شکار ہیں نہ انکے دن بدلے ہیں اور نہ زندگیوں میں کوئی بہتری آ سکی ہے۔ اسکی ذمہ دار ہماری سیاسی جماعتیں ہیں جو قومی مسائل کے بجائے الیکشن کو ذاتی جنگ سمجھ کر لڑتی ہیں اور یہی کچھ این اے 246 میں بھی دکھائی دے رہا ہے جہاں جماعت اسلامی تحریک انصاف اور ایم کیو ایم ایک دوسرے کیخلاف مد مقابل ہیں۔
لندن سے عزیزآباد تک
Apr 22, 2015