کراچی کے حلقہ 246 میں مقابلہ دوسرے نمبر کا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے نمبر پر کون آتا ہے۔ تحریک انصاف یا جماعت اسلامی۔ ویسے کوشش تو سیاسی طور پر ہے کہ تحریک انصاف تیسرے نمبر پر آئے۔ کچھ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم جیت جائے اور جیت جائے گی مگر ۔ ملتان کے رائو خالد الطاف حسین کے بہت بڑے وکیل ہیں۔ جنوبی پنجاب میں افتخار رندھاوا اور رائو خالد نے بہت کام کیا ہے۔ تحریک انصاف تیسرے نمبر پر آئے تو کیا اس کے بعد پارلیمنٹ میں خواجہ آصف ’’شرمناک‘‘ یعنی شرم دلانے والی تقریر کرے گا۔ ان سے کسی نے پوچھا ہے کہ وہ اس موقع پر روس کیا لینے گئے تھے؟ کسی سے پوچھا گیا تھا کہ تمہارے بارے میں مشہور رہا ہے کہ تم پیسے لیتے ہو۔ اُس نے کہا قسم لے لو ہم پیسے نہیں لیتے لوگ ہمیں پیسے دیتے ہیں۔
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا خیبر پی کے میں حکومتی اتحاد ہے مگر کراچی میں انتخابی اتحاد نہیں ہو رہا ہے۔ عجیب بات ہے کہ جماعت کو جیتنے کا یقین نہیں ہے اور نہ تحریک انصاف کے جیتنے کا شک ہے پھر بھی وہ دونوں اُڑنا چاہتے ہیں۔ اس بات میں کچھ تو ہے؟ کہ اتنا چرچا ہو رہا ہے۔
فرید پراچہ کے عشائیے میں برادرم سلمان غنی نے کہا کہ مقابلہ دوسرے نمبر کا ہے اور یقیناً یہ مقابلہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں ہے۔ پتہ نہیں چلتا کہ جماعت اسلامی کو کس نے اکسایا ہے ورنہ عمران خان کو پہلے اسلام آباد میں نواز شریف کے پیچھے لگا دیا گیا۔ عمران خان کو تو کچھ نہ ملا مگر یہ بات ہو گئی کہ نواز شریف حکومت کا نشہ اُتر گیا، اب پھر کچھ کچھ چڑھنے لگا ہے۔ نواز شریف کو گرانا مقصود نہیں تھا گرے ہوئوں کو سنبھالنا مقصود تھا مگر اُسے اپنی حکومت کے علاوہ یہ سزا بھی دی گئی کہ وہ چین کے ساتھ رابطے بڑھا رہا ہے۔ اس سے پہلے پاک چین دوستی کا خطرہ نہ امریکہ کو تھا نہ بھارت کو مگر اب ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ شریف برادران اگر اس مقابلے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ پاکستان بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ یہ بات مجھے نامور دانشور شاعر جلیل عالی نے بھی بہت پہلے کہی تھی کہ چین کے ساتھ دوستی کی سزا نواز شریف کو دی جا رہی ہے۔
عمران کی تحریک کا مقصد نجانے عمران کے ذہن میں کیا تھا، وہ وزیراعظم بننا چاہتا ہے مگر ’’اصل مقصود‘‘ نواز شریف کو راہ راست پر لانا تھا، اس کے اندر سے حکومتی نشہ کم کرنا تھا وہ ہو گیا تو عمران خان کی بھی بس ہو گئی۔ پارلیمنٹ میں خواجہ آصف جیسے آدمی کی بہت بے ہودہ باتیں سنُنا پڑیں۔ اب کراچی میں صورتحال کے بعد بھی خواجہ آصف سے کہلوایا جائے گا کیونکہ سیاست میں وہ اسی لئے لایا گیا ہے کہ وہ کہے جو ہم نہیں کہنا چاہتے۔
ایم کیو ایم کو بھی ختم کرنا مقصد شاید نہیں ہے اُسے بھی راہ راست پر لانا تھا اور وہ آدھے آ چکے ہیں۔ الطاف حسین بھی تقریروں میں خاکسارانہ انداز میں باتیں کرتا ہے۔ سُنا ہے کہ ایک تجویز مائنس ون کی بھی ہے۔ مائنس ون کی باتیں دوسری پارٹیوں میں بھی ہوتی رہی ہیں مگر یہ تجویز ابھی میچور ہوتی نظر نہیں آتی۔ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی سے منور حسن کو نکالنا مقصود تھا، سراج الحق کے ساتھ معاملات تقریباً ٹھیک جا رہے ہیں۔ الطاف حسین بھی بوڑھے ہو رہے ہیں مگر تقریر میں جوان لگتے ہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ الطاف کے بعد کون ہو گا۔ ابھی تک کوئی نظر نہیں آتا۔
فرید پراچہ کے عشائیے میں سراج الحق نے اچھی باتیں کیں، وہ اب قومی سطح کے سیاستدان بن گئے ہیں۔ مجھے ان کی شخصیت کی کئی باتیں اچھی لگنے لگی ہیں مگر میں جماعت میں قاضی حسین احمد، لیاقت بلوچ، فرید پراچہ، امیر العظیم کو دوست رکھتا ہوں۔ لیاقت بلوچ مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ سراج الحق جماعت اسلامی میں اپنی شخصیت کی کشادگی اور سادگی کی وجہ سے اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے الطاف حسین کے لئے جو باتیں کیں وہ عمران خان سے کم نہ تھیں مگر اُن کا لہجہ مہذبانہ تھا۔
ایک جلسہ خواتین کا بھی کیا گیا جس سے سراج الحق نے بھی خطاب کیا۔ عورتوں میں بہت جوش و خروش تھا مگر سٹیج پر ایک بھی عورت نہ تھی۔ کیا جماعت اسلامی میں ایک بھی عورت اس قابل نہیں، کسی عورت کو تقریر بھی نہ کرنے دی اور کریڈٹ لیا جاتا رہا کہ ہم نے خواتین کا بڑا جلسہ کر لیا۔ وہاں شاید سمیحہ راحیل قاضی بھی تھیں وہ ایم این اے کے طور پر پورے پردے میں قومی اسمبلی میں مردوں سے بڑھ کر جرأتِ ایمانی اور وجاہتِ نسوانی کے ساتھ موجود رہیں اب وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ممبر بھی ہیں۔ ان سے ملاقات ہے اور ان کی وجہ سے ڈاکٹر امت الازریں سے بھی بات چیت ہے وہ بھی پورے پردے میں تمام معاملات سروسز ہسپتال میں صدر شعبہ اور پروفیسر کی حیثیت سے بہت سرگرم، منتظم اور ہر دلعزیز ہیں۔
سمیحہ راحیل قاضی کو ہی موقع دیا جاتا تو جماعت کے کئی لوگوں سے اچھی طرح خطاب کرتیں، یہ نہ ہوا اور مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا۔ کراچی میں بھی قابل ذکر خواتین ہیں مگر جماعت کے ذہن میں نجانے کیا تھا؟
عشائیے میں سینئر اور ممتاز صحافی سلمان غنی نے تحریک انصاف کے ساتھ رابطے کا پوچھا اور پوچھا کہ آپ کو یقین ہے کہ آپ جیت جائیں گے۔ سراج الحق نے کہا کہ لیاقت بلوچ بھی جہانگیر ترین سے ملے ہیں مگر بات آگے نہیں بڑھ رہی۔ سراج الحق سے میری گزارش ہے کہ بات پیچھے بھی نہیں ہٹ رہی، جماعت نہ بھی جیتی تو اپنی حیثیت ضرور کچھ نہ کچھ واپس لے آئے گی۔
جماعت اسلامی کا جلسہ تحریک انصاف کے جلسے سے چھوٹا نہ تھا مگر دونوں جلسے الطاف حسین کے جلسے سے چھوٹے تھے۔ لگتا ہے کہ کراچی کے لوگ کسی نہ کسی طرح الطاف حسین کے ساتھ ایک تعلق رکھتے ہیں۔ پروفیسر غفور ایم کیو ایم سے ڈیڑھ ہزار ووٹوں سے ہار گئے، ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایک بجے تک الیکشن منصفانہ تھے پھر آزادانہ ہو گئے۔ کراچی میں جماعت کا کام ہے، دفاتر بھی ہیں، ایم کیو ایم کو یہ طاقت اور حیثیت جماعت اسلامی نے دی ہے، جماعت کے میئر نعمت اللہ خان نے کراچی میں قابل ذکر کام کرائے اور عزت پائی۔ ان کے مقابلے میں ایم کیو ایم کے میئر مصطفی کمال نے بھی خوب کام کیا اور ایک مقام پایا۔ پروفیسر غفور فوت ہو گئے مگر مصطفی کمال نجانے کہاں زندہ ہیں؟ مقابلہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کا ہونے دیں۔ عمران کی عزت اسی میں ہے کہ وہ اپنے ہم نام عمران اسماعیل کو بٹھا لے۔ لوگ تو کہہ رہے ہیں کہ عمران کراچی میں ہار جائے گا اسماعیل کا کیا ہے وہ بچا لیا جائے گا۔ قربانی کا بکرا کون ہوا؟
عمران کراچی میں تیسرے نمبر پر ہو گا اور مائنس ون
Apr 22, 2015