لاہور (سید شعب الدین سے) پاکستان کی انتخابی تاریخ میں آئندہ 72گھنٹے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جو آئندہ کے سیاسی منظر نامے اور سیاسی رویوں کا تعین کریں گے۔ ایک طرف کل 23 اپریل کو کراچی کی سیاست ایک نیا رخ اختیار کرنے جارہی ہے جس سے کراچی کے انتخابی کینوس پر اہم تبدیلیاں رونما ہونے کا قوی امکان ہے۔ دوسری طرف کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات نہ صرف پہلی مرتبہ جماعتی بنیادوں پر ہونے جا رہے ہیں جبکہ طویل عرصے کے بعد سیاسی شخصیات کو پہلی بار ’’نوگو ایریاز‘‘ میں سیاست کرنے کا موقع ملا ہے۔ کراچی کا حلقہ این اے 246ملکی سیاست میں غیرمعمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ وہاں تین بڑی جماعتوں کے درمیان انتخابی رسہ کشی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ایم کیو ایم اس سیٹ کو اپنی وراثت قرار دیتی ہے جبکہ تحریک انصاف ’’خوف‘‘ ختم کرنے کی بنیاد پر متحدہ کے گڑھ عزیز آباد میں انتخابی مہم چلانے کا غیرروائتی ’’رسک‘‘ بھی لے چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی جس کا کبھی کراچی کی سیاست میں طوطی بولتا تھا۔ اپنے نئے امیر سراج الحق کی قیادت میں ایک سیاسی انگڑائی لیکر میدان میں اتری ہے اور دوسری بڑی جماعت ہونے کی دعویدار ہے۔ متحدہ کی طرف سے اس حلقہ میں شدید ردعمل کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا اور الطاف حسین نے جو زبان اختیار کی اس نے سیاسی کشیدگی کو ہوا دی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ابتداء میں اییس لگتا تھا کہ ضمنی الیکشن کا انعقاد مشکل ہو جائے گا۔ انہی تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیو ایم کی طرف سے یہ شدید ردعمل اس امر کا غماز بھی تھا کہ وہ تحریک انصاف کو اپنے مستقبل کیلئے خطرہ سمجھ رہی ہے۔ دوسری طرف سیاسی حلقے حیران ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعویدار مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی این اے 246کے ضمنی الیکشن سے مکمل لاتعلق ہیں تاہم پیپلزپارٹی کے ترجمان قمر الزمان کائرہ کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی پالیسی ک یتحت اس الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے کیونکہ یہ نشست اتحادی جماعت نے خالی کی ہے او وہی یہاں سے دوبارہ لڑ رہی ہے۔ 23اپریل کو فیصلہ تو یقیناً کراچی کے عوام کریں گے لیکن کیا 23اپریل کا یہ ضمنی انتخاب پرامن طور پر ہو سکے گا اس کی ذمہ داری رینجرز، سیاسی جماعتوں اور صوبائی انتظامیہ پر ہے۔