ہم کوریا‘ ملائشیا‘ ہانگ کانگ‘ تائیوان‘ سنگاپور وغیرہ کی ترقی کا تذکرہ ہی نہیں کرتے ہم تو صرف ہمالیہ سے اونچے اور سمندروں سے گہرے دوست کی بات کرتے ہیں۔ جسکی عالمی طور پر دنیا کی سب سے بڑی معاشی و فوجی حیثیت کو دیکھ کر اسلئے نہیں کڑھتے کہ وہ ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے لیکن ہمارا دل تو اس لئے دکھتا ہے کہ وہ ہم سے بعد میں آزاد ہوا جبکہ ہم آزادی کے بعد کسی قانون، کسی ضابطے اور کسی بھی اخلاقی تقاضوں سے مادر پدر آزاد ہو کر اپنی تابناک شناخت کو ہولناک بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہماری آزادی کے 68 سال اسلئے وبال بن کر رہ گئے ہیں کہ اتنے لمبے عرصے کے بعد فوج اور حکومت نے یکجا ہو کر قاتلوں کو انصاف کے آفاقی اصولوں کو عملاً نافذ کرکے کروڑوں ہم وطنوں کے دلوں کی ترجمانی کی تھی جسے سپریم کورٹ نے یک جنبش قلم بند کرنے کا حکم صادر فرما دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ پھانسی کی سزائیں خلاف آئین تھیں تو چیف جسٹس صاحب نے اس خلاف ورزی پر ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا۔ پھانسی پانے والے تو اگلے جہان پہنچ گئے۔ اگر وہ بے قصور تھے تو پھر اس خونِ ناحق کی ذمہ داری کون قبول کریگا؟میں حلفاً کہتا ہوں کہ اس بندش سے سوائے عاصمہ جہانگیر کے کوئی محب وطن خوش نہیں ہوا۔ یقین نہ آئے تو ریفرنڈم کرا کے دیکھ لیں صرف صولت مرزا کے خاندان کیلئے یہ خبر مسرت و انبساط انگیز تھی۔ پاکستان کے ہر حکمران کی آنکھوں کا تارا اور اقتدار بچانے کا آخری سہارا عاصمہ جہانگیر ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن ہیں جو قاتلوں اور دہشت گردوں کا دفاع کرتی ہیں۔ دور مشرف کے دوسرے حصے میں صدر نے دوام اقتدار کےلئے اور بادشاہ گر طاقت کو خوش کرنے کیلئے پھانسی کی سزا کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس سے قبل ضیاءالحق کے دور میں حدود آرڈیننس جو اللہ کی قائم کردہ حدود شرعی ہیں کھل کر مخالفت کی شاید انہیں اپنے ”آشیانے“ کی فکر تھی۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گستاخی رسول کی سزا کو ختم کرنے کی سب سے بڑی محرک اور معاون ہیں۔ دہشت گردوں اور ڈاکوﺅں حتیٰ کہ موبائل چور کو عوام مار مار کر ادھ موا کر دیتے ہیں یہ عوام کی نفرت کا کھلا اظہار ہے، چین اور سعودی عرب میں لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے یعنی ملاوٹ کرنیوالوں کیلئے موت کی سزا مقرر ہے مگر پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں دل کے مریضوں کو جعلی Life Saving Drugs دیکر درجنوں مریضوں کو مار دیا جاتا ہے۔ عاصمہ کی ہمدردیاں مارنے والوں کیساتھ ہیں یا مرنے والوں کے۔ ہیومن رائٹس کی سربراہ نے اس سلسلے میں اب تک کیا کیا؟ جس ملک کی مالی امداد سے این جی اوز قائم ہیں وہاں تو امریکہ کی آزادی سے 1972ءتک پھانسی کی سزا قائم رہی۔ چار سال کی بندش کے بعد دوبارہ سزا بحال کر دی گئی تھی۔ واشنگٹن جو دارالخلافہ بھی ہے اور ہمسفائر ریاست میں پھانسی کی سزا قائم ہے۔ امریکہ میں پچھلے چالیس سال میں تیرہ عورتوں کو بھی پھانسی پر لٹکایا جا چکا ہے۔ تازہ ترین پھانسی امریکی ریاست میسوری میں دی گئی ہے۔ پچھلے ہفتے میسوری کے گورنر جے نکسن کی جانب سے قتل کے مجرم کی رحم کی اپیل مسترد کئے جانے کے بعد مجرم کو سزائے موت دی گئی ہے۔ گورنر کو کی جانیوالی رحم کی اپیل میں تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا کہ کول ایک سیاہ فام شخص تھا، جبکہ سزائے موت سنانے والی جیوری سفید فام تھی۔ واضح رہے کہ اینڈریو کول نے 16 سال قبل غصے میں آ کر ایک شخص کو قتل کر دیا تھا۔ اینڈریو تیسرے شخص تھے جس کی سزا پر عملدرآمد کر دیا گیا ہے اور اسے مہلک انجکشن دےکر مار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی سزا کا فیصلہ معطل نہیں کیا۔ ہماری دعا ہے عاصمہ جہانگیر، ملالہ کی طرح مزید ترقی کریں چونکہ انکی شخصیت جہانگیر، بلکہ عالمگیر حیثیت رکھتی ہے۔ لہٰذا وہ اب عالمی سطح پر یورپی ممالک اور امریکہ میں دکھی انسانیت کی خدمت اس طرح سے کریں کہ وہاں پھانسی کالے قانون کےخلاف آواز بلند کریں اور سفید فاموں کی مدد کریں۔ ویسے بھی وکیل تقل کے کیس کے کروڑوں روپے لیتے ہیں‘ وہ فوجی عدالتوں کو کیسے قبول کر سکتے ہیں۔اور ہماری آس نہ توڑیں۔ ہماری امیدیں جنرل راحیل شریف انشاءاللہ ضرور پوری کرینگے۔ مایوسی کفر اور شرک کی طرف لے جاتی ہے۔ جنرل شریف کا تو عزم مزید بلند ہو گیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ سرحد کے دونوں اطراف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جائیگا لیکن کیا دونوں جانب انکے سہولت کاروں کو بھی نشانہ بنایا جائیگا؟ جو صرف زیر زمین اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ انکی تنظیمیں بھی موجود ہیں۔ آخر میں عرض ہے کہ حدیث کے مطابق عادل حکمران کی نیند اور اس کا سونا ستر برس کی عبادت سے بہتر ہے۔ اللہ کی زمین پر حق و انصاف کے ساتھ سزائیں دینا اور حد کو قائم رکھنا چالیس روز کی بارش سے زیادہ پاکیزہ ہے۔لیکن ہم اگر مقتولوں کی بجائے قاتلوں کے حقوق کی جنگ لڑیں گے تو کیا مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں گے؟ آس و امید کیلئے مسلمان ہونا شرطِ اولین ہے!
روشن اس صفت سے اگر ظلمتِ کردار نہ ہو!
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام