”بے جا ڈانٹ ڈپٹ سے بچے“ خوداعتمادی کھو دیتے ہیں

Apr 22, 2015

ماہرین کے مطابق بچوں پر ڈانٹ ڈپٹ ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے یہ درست ہے کہ بچوں کو اچھے بُرے کی تمیز یاپہچان کروانا بہت ضروری ہے،ابتداءیعنی تین یاچار سال یہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے اور جب بچہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اسے صحیح تربیت دینا والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا بھی فرض بن جاتا ہے کیونکہ اساتذہ کرام ذہین،ہونہار اور لائق بچوں کو فرش سے عرش تک لے جاتے ہےں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بچے ڈانٹ ڈپٹ اور قوت اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں انہیں ڈانٹ سے نہیں بلکہ پیار سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ایک وقت تھا کہ ننھے منے بچوں پر تشدد کیا جاتا تھا اور انہیں مارپیٹ سے پڑھایا جاتا تھا جس کا نقصان یہ ہوا زیر تعلیم طلبہ وطالبات پڑھنے لکھنے سے جی چُرانے لگے اور انہوں نے اسکول جانے کو ترجیح نہ دی مجبوراً والدین انہیں کسی کام پر لگا دیتے تھے۔بے شک موجودہ دور میں ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن یہ سلسلہ ابھی مکمل طورپر ختم نہیں ہوا، اب بھی چند ایک واقعات منظر عام پر آہی جاتے ہیں، حال ہی میں 

دیہی علاقوں میں سرکاری سکولوں میں اب بھی بچوں پر ظلم و تشدد کیا جاتا ہے،آئے روز ٹی وی چینلز اور اخبارات میں زیر تعلیم طالب علموں پر ظلم و تشدد کی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں،گو کہ شہروں کے بڑے پرائیویٹ سکولوں میں مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کا تصور بھی نہیں لیکن یہاں بھی توتعلیم حاصل کرنے والے بچے نمایاں پوزیشن حاصل کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچے پیار اور توجہ کے مستحق ہیں وہ مارپیٹ،ڈانٹ ڈپٹ نہیں چاہتے۔ماضی میں زیر تعلیم بچوں پر تشدد کیا جاتا رہا جس کا نقصان یہ ہوا کہ بچے تعلیم سے جان چھڑانے لگے اور بہت کم بچے ایم اے تک پہنچے ورنہ میٹرک، ایف اے یا زیادہ سے زیادہ بی اے کرنے کے بعد نوکری کر لیتے یا پھر بڑوں کا کاروبار سنبھالنے کےفرائض انجام دیتے،آج کے بچے ہر میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منواچکے ہیں،تعلیمی سفر ہو یا کھیل کا میدان،انٹر نیٹ ہو یا موبائل فون ننھے منے اور بڑے بچے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ پر قابو پانے کے بعد اب ہر بچہ ہرمیدان میں آگے نکلنے کی کوشش میں رہتاہے۔یہ وہ دور ہے جہاں بچے ایک یا دوکم نمبروں کی کمی کی وجہ سے اچھے کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
بچے آخر بچے ہیں امیر ہوں یا غریب آج کل کے بچے خدا داد صلاحیتوں کے مالک ہیں جو بچے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور چھوٹی سے عمر میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں وہ جس فیلڈ سے بھی تعلق رکھتے ہیں ان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ اگر یہ اسکول داخل ہوتے تو وہاں بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ذہانت کا لوہا منواچُکے ہوتے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کروڑوں بچے اس وقت تعلیم سے محروم ہیں کیونکہ وہ تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتے اور محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں گو کہ موجودہ حکومت نے بچوں کی تعلیم اور صحت پر خاص توجہ دی ہے لیکن تعلیمی نظام کو درست کرنا فرد واحد کا کام نہیں اس کے لئے تعلیم کے شبہ سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کو اپنا حصّہ ڈالنا ہوگا اور اپناکام ایمانداری سے سر انجام دینا ہوگا ، خاص طور پر سرکاری سکولوں کے ٹیچرزکو اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے،کیونکہ دیہی علاقوں میں اب بھی زیادہ تر سرکاری سکول ٹیچرز بچوں پر تشدد کرتے ہیں اور اپنا ذاتی کام بھی کرواتے ہیں اور جو بچہ کام سے انکارکرے ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب بچوں کی تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں۔ وہ کئی مرتبہ اس سلسلے میں خطاب بھی کر چکے ہیں حال ہی میں انہوں نے کہا کہ 2018ءتک صوبہ پنجاب کے ہر بچے یا بچی کے سکول داخلے کا ہدف مقرر کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ نئے مرحلے کے تحت سکولوں مین زیر تعلیم طلبا و طالبات کو امتحانی سوالات میں 85 فیصد کے جوابات درست دینا ہوں گے جس سے معیار تعلیم کو فروغ ملے گی اور طلباءو طالبات کی صلاحیتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگاہر طالب علم امتیازی پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے لاہور کے دیہی علاقوں میں ایک اسکول اپنانے (اڈاپٹ کرنے) کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس اسکول کے معاملا ت کی نہ صرف نگرانی کریں گے بلکہ گاہے بگاہے اسکول کا دورہ بھی کریں گے۔ بے شک صوبہ پنجاب میں تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے لیکن صرف پنجاب ہی کیوں؟ پڑھا لکھا پاکستان ہونا چاہیے دوسروں صوبوں کو بھی تعلیم پر زور دینے کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے سندھی، بلوچی اور پٹھان بہن بھائیوں کو بھی تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر پڑھا لکھا پاکستان ہوگا تو مستقبل میں یقیناََ پاکستان کا نام روشن ہوگا۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے ہر بچے کو تعلیم سے روشناس کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے ابھی تعلیمی شعبہ میں ترقی کے لئے بہت کچھ کرنا باقی ہے یہاں بہت سے اسکول ایسے ہیں جہاں بنیادی تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔ پاکستان کے تمام سکولوں میں بنیادی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی اولین اور اہم ذمہ داری ہے۔ معیاری تعلیم پر ہر بچے کا حق ہے بہت سے ایسے بچے ہیں جو تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور مجبوراََ اپنے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کے لئے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔
بات ہو رہی تھی ڈانٹ ڈپٹ کی،جہاں بے جا لاڈ پیار بچوں کو خود سر اور ضدی بنا دیتا ہے وہاں اساتذہ اور والدین کی ضرورت سے زیادہ اور بے جا ڈانٹ ڈپٹ بچوں میں بگاڑ پیدا کرتی ہے جس سے بچہ پڑھنے لکھنے کو ترجیح نہیں دیتا اور اسکول سے جان چھُڑانے کی کوشش کرتا ہے موجودہ دور میں جہاں پوری دنیا میں بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے پیارے وطن پاکستان میں بھی تعلیم پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ہر بچے پر تعلیم لازمی ہونی چاہئے اور بچوں کو پیار سے تعلیم کی طرف راغب کرناچاہئے۔

مزیدخبریں