ایک ضرب المثل محاورہ ہے کہ ظلم رہے اور امن بھی ہو، اس پر دانشوروں اور اہل بصیرت نے بڑے سیرحاصل تبصرے کئے ہیں۔ یہ محاورہ کوزے میں دریا بند کرنے والی بات ہے ظلم کی مختلف اشکال ہیں اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور بروقت انصاف کی فراہمی میں تاخیر بھی ظلم کی تعریف میں آتا ہے ،اس سے امن بھی متاثرہ ہوتا ہے لہٰذا محاورہ میں معمولی ترمیم کی جسارت کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ انصاف نہ ملے اور امن بھی ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ امن کی طرح انصاف کی فراہمی بلکہ فوری فراہمی پوری دنیا اور خصوصی طور پر پاکستان کے عوام کی آرزو اور مانگ تو ہے ہی، پاکستانی عوام یعنی عام آدمی کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ خبر ون ہے۔ ظاہر ہے کہ انصاف کے بغیر معاش ہے نہ انصاف، عدالت عالیہ لاہور کے چیف جسٹس منظور احمد ملک گذشتہ روز فیصل آباد اور سرگودھا کے دورے پر تشریف لائے۔ چیف جسٹس منظور احمد ملک نے اپنے د ورے کے دوران وکلاءپولیس افسران اور انتظامیہ کے افسران سے خطاب کیا ، اپنے خطاب میں بعض ایسی باتیں بھی کہیں جو ان کے قلبی دکھ کا سچا اظہار تھا۔ خصوصی طور پر فیصل آباد اور سرگودھا میں وکلاءکی بات بات پر ہڑتال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہر شہری کو سستا اور فوری انصاف وکلاءاور عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے نتیجہ میں عام آدمی کے اندر مایوسی وناامیدی پیدا ہو رہی ہے جو لوگ دور دراز کا سفر کر کے عدالت پہنچتے ہیں اور ہڑتال کی وجہ سے انہیں مایوس اور بداعتمادی کے عالم میں واپس جانا پڑتا ہے جو ان کے دل پر بیتتی ہے وہ وہی جانتا ہے۔ وکلاءکی بے جواز ہڑتالیں وکلاءکو خود دعوت فکر دیتی ہیں۔ ججز کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عدالت عالیہ کے چیف جسٹس منظور احمد ملک نے بات تو بڑی دل لگی کی کہی ہے۔ وکلاءبرادری ہڑتال اور احتجاج پہلے بھی کیا کرتی تھی بلکہ وکلاءکی ہڑتالوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ ہڑتال بھی احتجاج کا ایک ذریعہ ہے ، دنیا بھر میں اس ذریعہ احتجاج کو اپنایا جاتا ہے۔ وکلاءکی ہڑتالیں پہلے قومی ایشو پر ہوا کرتی تھیں۔ جنرل ایوب خان کی آمریت سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری زمانہ آمریت تک وکلاءکی ہڑتالوں پر ایک نظر ڈالیں تو وکلاءکی عوام دوستی، جمہوریت پسندی، آئین و قانون کی بالادستی کے لئے جدوجہد کو نہ تاریخ فراموش کر سکتی ہے نہ مورخ کا قلم ڈنڈی مار سکتا ہے لیکن وکلا سے معذرت کے ساتھ عرض کریں گے کہ عدلیہ کی آزادی و بحالی کے لئے جنرل پرویزمشرف کے عہد حکومت میں وکلاءنے جو تحریک چلائی اس تحریک کی کامیابی کے بعد ایک نئے کلچر نے جنم لیا جس کے اثرات تاحال نظر آتے ہیں کیونکہ معمولی باتوں پر وکلاءنے عدالتوں کے بائیکاٹ اور ہڑتال کو اپنا ”حق“ قرار دے دیا۔ ہڑتال یقینی طور پر احتجاج کا ایک موثر ذریعہ ہے لیکن احتجاج بھی سلیقہ کا غماز ہوتا ہے لہٰذا چیف جسٹس عدالت عالیہ نے وکلاءکو جو قلبی دکھ کے ساتھ سچ کا اظہار کرتے ہوئے دعوت فکر دی ہے ہمارے سینئر وکلاءکو اس پر لبیک کہتے ہوئے کوئی لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ فیصل آباد میں ہائیکورٹ کے بنچ کے قیام پر اظہار خیال کرتے ہوئے جس کی طرف فیصل آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ملک محمد ایوب سیالوی نے اپنے خطاب میں توجہ مرکوز کرائی۔ فیصل آباد ہائیکورٹ کے بنچ کے قیام کی تحریک وکلاءفیصل آباد جنرل (ر) پرویزمشرف کے عہد حکومت سے چلائے ہوئے ہیں گویا حکمران تبدیل ہوتے رہے اور وہ لوگ بھی مسند اقتدار پر براجمان ہوئے وہ فیصل آباد ہائیکورٹ بنچ کے قیام کو اپنا منشور قرار دیتے ہوئے ”ایمان“ کا درجہ قرار دیتے تھے لیکن ایوان اقتدار میں داخل ہوتے ہی بلاامتیاز پیپلزپارٹی و مسلم لیگ(ن) نے رات گئی بات گئی پر عمل کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے ولی تو تحریک والوں کے ساتھ اور کوفہ کے لوگوں کی طرح دل حسین کے لئے دھڑکتے تھے لیکن تلواریں یزید کے ساتھ تھیں والی کہاوت مجسمہ تصویر بن کر سامنے رہی ، وکلاءنے بھی بنچ بنا¶ تو بار کے انتخابی موسم میں اپنا نعرہ قرار دیا، جیسے میاں محمد نوازشریف اور میاں محمد شہبازشریف نے لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اسلام آباد فتح کر لیا نہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہ فیصل آباد ہائی کورٹ بنچ کا قیام عمل میں آ سکا۔ اب پھر بنچ کے قیام کی صدا دی ہے جس پر چیف جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے اس کمیٹی نے اپنا کلام شروع کر دیا ہے جس کی سفارشات کے بعد دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلہ کا قانونی آئینی حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ گویا مسئلہ کا کوئی حتمی حل بتانے کی بجائے ایک بار پھر لالی پاپ دے دیا گیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، مایوسی گناہ ہے۔ وکلاءاپنی جدوجہد جاری رکھیں انتخابات کا انتظار کریں جو بقول عمران خان 2015ءانتخابات کا سال ہے ، عدالت عظمیٰ نے جو جوڈیشل کمیشن بنایا ہے اس نے انتخابی دھاندلی کو طشت ازبام کر دیا معاہدہ کے تحت میاں محمد نوازشریف نے اسمبلی توڑ دی تو دونوں بڑی پارٹیاں منہ دیکھتی رہ جائیں گی۔ ہو سکتا ہے نئی حکومت کے عہد میں اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے تاحال تو وعدہ پر اعتبار کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ چیف جسٹس منظور احمد ملک نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ جج آئین اور قانون کے مطابق عوام کو انصاف فراہم کریں۔ مظلوم کو سستا اور فوری انصاف دیئے بغیر کوئی معاشرہ مہذب نہیں بن سکتا۔ ہر شخص کو قانون و آئین کی رو کے مطابق فوری انصاف وکلاءاور عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جج اور بار عام آدمی کے لئے انصاف کی فراہمی میں لازم و ملزوم ہیں۔ اس وقت عام آدمی حصول انصاف کے لئے پریشان نظر آ رہا ہے۔ چیف جسٹس منظور احمد ملک نے پولیس اور انتظامیہ کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ اور عدلیہ کے مابین کسی قسم کی مخاصمت اور مخالفت کا تاثر یکسر غلط ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے عزت و احترام کو کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑنا چاہیے ، پولیس عدالت میں چالان پیش کرنے کے بعد اپنے فرائض سے سبکدوش نہیں ہوتی۔ انہیں کیس کی مکمل پیروی کرتے رہنا چاہیے۔ موجودہ دور میں عام آدمی کو شکایت ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے باعث موجودہ نظام موثر نہیں ہے ،چیف جسٹس منظور احمد ملک نے اعتراف کیا کہ اس میں بڑی حد تک سچائی ہے۔ کائنات کے سب سے بڑے سب سے اعلیٰ اور سب سے بالا اور سچے اور امین انسان حضور سرور کائنات کا یہ ارشاد اس باب میں ”قول فیصل“ کا درجہ اپنے اندر ازل سے ابد تک کی صداقت کا جوہر رکھتا ہے کہ ”تم سے اگلی قومیں اس لئے تباہ و برباد ہو گئیں کہ وہ امیر اور غریب کے لئے الگ قانون رکھتی ہیں“۔ ایمان دار حکمران اور کرسی انصاف پر بیٹھا ہوا راست گو اور آئین و قانون کا پاسبان اللہ تعالیٰ کا مطبعہ ہوتا ہے لیکن اسے ایمان دار ہونے سے کہیں بڑھ کر ”بے دید“ ہونا چاہیے۔ یہ لفظ ہے تو بہت سخت مگر ہے انتہائی موزوں، بے دید کا مطلب آنکھوں کی چمک سے محروم ہونا نہیں۔ طبیعت کی لچک سے عادی ہوتا ہے ایسے مسند نشین کسی کی نوٹوں کی کڑک، بوٹوں کی دھمک، سپرے کی ڈمک اور حسن کی جھلک طاقت کی بڑھک ، محبت کی لپک اپنی رائے ، فیصلے سے نہ ہٹا سکے جبکہ ہماری تاریخ کے یہ سنہری اوراق ہیں جو حکمران خود قانون کے سامنے جھکنے والا ہو گا اس ملک میں کوئی مائی کا لال عدل کی میزان کو نہیں جھکا سکے گا جو حکمران خود رعایت کا طالب نہ ہو کوئی اس کی مروت آزمانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ جو حکمران حضرت عمر بن خطاب کی طرح اپنے بیٹے کو کورے کھاتے دیکھنے کی تاب رکھتا ہو اس کے کورے سے کوئی عذاب نہیں بچ سکتا ،ہمارے ہاں ہو یہ رہا ہے کہ پروٹوکول کے نام پر عوام کی حفاظت اور خدمت کے لئے جو فورس ہے وہ حکمرانوں کی ذاتی غلام کا کردار ادا کر رہی ہے ، قانون کے راستے میں کبھی دولت حائل ہو جاتی ہے کبھی قرابت آڑے آتی ہے کبھی مروت جلوہ دکھاتی ہے کبھی مصلحت فتنہ دکھا دیتی ہے کبھی سیاست مراد پا جاتی ہے۔ قتل بڑا ظلم ہے مگر قاتل کے چہرے کو دیکھ کر قانون کا حرکت میں لانا اس سے بڑا ظلم ہے۔ ڈکیتی سنگین جرم ہے مگر ڈاکو کے سماجی رتبے کو ملحوظ رکھنا اس سے بڑا ظلم ہے لہٰذا جب تک اس نظام کو ہم پاتال میں دفن نہیں کرتے۔ انصاف بولتا ہوا نہیں سنائی دے گا۔ چیف جسٹس منظور احمد ملک نے بھی اپنے خطاب میں فوری اور سستا انصاف کی فراہمی کی بات کرتے ہوئے اس کوڑھ زدہ نظام کی طرف اشارہ کیا ہے جو سب سے زیادہ غریب آدمی کی راہ میں ہمالیہ سے اونچی چوٹی کا درجہ رکھے ہوئے ہے جسے گرانے کی کسی میں ہمت نہیں اور کہتے ہیں کہ ظلم رہے اور امن بھی ہو!! یہی تضاد ہمارے مسائل کو جنم دیتا ہے جس کے خاتمہ کی ضرورت ہے!
فوری اور سستا انصاف ”حکمرانوں کی ذمہ داری “
Apr 22, 2015