گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر وفا قی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وا ضح طور پر بتایا ہے کہ ہم نے معیشت کو اتنا مظبو ط بنادیا ہے کہ انشا ء اللہ بجٹ کے مو قع پر جون میں آئی ایم ایف کے پاس جانا نہیں پڑیگا ۔ٹی وی اینکر نے انہیں یا د دلا یا کہ یہ باتیں تو سابقہ حکومتیں اور آ پ کی جما عت کے منشور میں شا مل تھی کہ ہم نے وہ کشو ل ہی تو ڑ دیا ہے جو لیکر آئی ایم ایف کے پاس جاتے تھے مگر آپ نے کشکو ل کے ٹکرے جوڑ کر پھر سیدھا کر لیا تھا اور 2013 سے آج تک مسلسل ایف ایم ایف کے پا س جا رہے ہیں ،حتیٰ کہ اب تو گھر کی چیزیں بیچ کر واپسی کی ضمانتیں بھی دی گئی ہیں جس میں پاکستان سٹیل ملز پی آئی اے واپڈا ،ریلوے جیسے قومی ادارے بھی شامل ہیں جنہیں پرائیویٹائز کر نے کی سکیمیں بھی تیا ر ہو چکی ہیں عوام پر تقریبا ً ایک لا کھ روپے فی کس قر ضہ ہو چکا ہے ۔ سابقہ حکومتی دعوئوں اور وعدوں کی روشنی میں سو چا جا سکتا ہے کہ جون میں پھر ایک اعلان کر دیا جائے کہ ہمیں مجبوراً ایک با ر پھر آئی ایم ایفء اے کے پا س جانا پڑیگا اور اس مر تبہ ہم کچھ مزید حکو متی ادارے انکے سپرد کر نے کے وعدے پر قرض لیں گے اور شاید اسکے بعد حکو مت کے پا س کچھ نہ بچے جو آئی ایم ایف لینے کو تیار ہو۔ وزیر خزانہ صا حب سے التماس ہے کہ وہ بجٹ سے پہلے یا بجٹ کے بنا تے وقت عوام کو ٹیکسوں کے شکنجہ سے نکال کر غریبوں کو دینا شروع کر دو پھر دیکھو کس طرح واپس آتا ہے۔ اس سلسلہ میں ممتا ز دانشور ادیب اشفاق احمد کا تجر بہ ملا حظہ فرمائیے۔
اشفا ق احمد لکھتے ہیں کہ میرے بہت ہی پیا رے اور گہرے دوست ابنِ انشا کراچی سے آئے ، وہ مجھے گھر ڈھونڈتے رہے ۔انہوں نے سوچا کہ و ہ ضرور ڈیڑے گیا ہو گا چنانچہ وہ ایک بڑا ڈنڈا لیکر مجھے ڈھونڈتا ہوا ڈیرے پر آگیا اسے بہت تکلیف اور شرمندگی تھی کہ یہ آدمی کس جگہ پر آ بیٹھا ہے میں اندر بیٹھا رہا اس نے کہا با ہر آئو تم ،میں ڈرتا ہوا اسکے قریب پہنچا ،اس نے کہا تمہیں شرم آنی چا ہیے ۔میں نے تمہیں کئی مرتبہ سمجھایا ہے ،یہ زمانہ سانئس اور ٹیکنا لو جی کا ہے تم کس فضو ل جگہ پر آ کر بیٹھ جاتے ہو اور کیا سیکھتے ہو یہاں پر میر ے دو دوست تھے ایک ابن ِ انشا ء اور ایک ن م راشد یہ سا ئنس اور ٹیکنا لو جی سے بہت مرعو ب تھے ۔ابن ِ انشاء کو غصہ تھا اس بات کا اس لئے وہ مجھے ہٹانا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے کہا مجھے یہ بتا ئو یہا ں کیا ہے جو تمہیں کسی کتاب میں ،کسی لائبریری میں نہیں ملتا ۔میں نے اسے کہا کہ کچھ خبریں مشا ہدے سے ملتی ہیں مثلا ً میں نے کہا کل ہم بابا جی کے سا تھ گئے تھے رکشہ سے اترے، میں نے ساڑھے تین روپے کرایہ دیا ، اس طرح سے با با جی نے کہا تو نے پانچ ہی دے دینے تھے تو نے بھی تو دتے سے ہی تو دینے تھے ۔ تونے کو نسا پلے سے دینا ہے ،تو ابن ِ انشا ء خاموش ہو گیا یہ سن کر۔ اب وہ شا عر آدمی تھا اس کی روح بہت پیاری تھی ۔وہ یہ تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اس نے سن لی ۔ خوشی خوشی اسکے چند ما ہ بعد میں کراچی ابنِ انشا سے ملنے اسکے آفس گیا ہم ادھر ادھر کی باتیں کررہے تھے اس دوران ایک لڑکی آئی اسکی صحت بہت خراب تھی اسے یر قا ن تھا کالا بر قع اس نے پہنا ہوا تھا اس نے ایک خط ابن ِ انشا کو دیا جسے پڑھ کر وہ رونے لگا اس لڑکی کی طرف دیکھا اور اسے کہا کہ بی بی میر ے پاس اس وقت یہ صرف تین سو روپے ہی ہیں یہ تم لے لو لڑکی شکریہ ادا کر تے ہی چلی گئی ۔جب لڑکی چلی گئی تومیں نے یا ر انشا یہ لڑکی کون تھی کہنے لگا پتہ نہیں میں تو اس نہیں جانتا ۔اس نے خط میں لکھا تھا کہ محترم انشا صاحب میں آپکے کالم بڑے شو ق سے پڑھتی ہوں میں لیا ری کے ایک سکول میں ٹیچر ہوں ، میری تنخواہ 130 روپے ہے ۔میں اور میرے بابا ایک کھو لی میں رہتے ہیں جس کا کرایہ ایک سو سا ٹھ روپے ہو گیا ہے ، یہ رقم ہمارے پاس نہیں ہے اسلئے مالک مکان سامان اٹھا کر باہر پھینک رہا ہے اگر آپ مجھے 160 روپے دیدیں تو میں آسان قسطوں میں دس روپے ماہوا ر واپس کر دونگی ،میں کراچی میں سوائے آپ کے کسی کو نہیں جانتی وہ بھی آپکے کا لم کی وجہ سے ،میں نے کہا اوئے بے وقو ف آدمی اس نے تو تجھ سے 160 مانگے تھے اور تونے تین سو دے دئیے ۔کہنے لگا یا ر میں نے بھی تو دتے سے ہی دینے تھے کو نسا پلے سے دیا ہے ۔اس کو بات کی سمجھ آگئی تھی ۔جو میں نے کہا ارے یہ فقرہ تو میں نے کہیں سنا ہوا ہے ، کہنے لگا میں نے کچھ کالم لکھے تھے یہ ان کا معاوضہ تھا ۔یہ تین سو روپے میرے پاس ایسے ہی پڑے تھے میں نے دیدئیے ۔
کوئی آٹھ مہینے بعد میری پھر اس سے لاہور میں ملاقات ہوئی کہنے لگا تیرے بابا کا فلسفہ بڑا خوفناک ہے ،اور بہت بڑا ہے اس سے تو آ دمی باہر نہیں نکل سکتا میں نے کہا کیوں؟ میں نے اس لڑکی کو تین سو روپے دیئے تھے تومیری جان عذاب میں پڑگئی تھی ۔میں ٹوکیو ایک میٹنگ اٹینڈ کرنے گیا تھا وہا ں مجھے یونیسکو سے خط آیا تمہارے ایک ہزار ڈالر ہمارے پا س پڑے ہیں بتائیں ہم کہا بھیجیں ،میں نے کہا کہ میں وہاں آکر لے لونگا ۔ایک سال کے اندر یور ش ہو گئی پیسوں کی ایسی ایسی جگہ سے آنا شروع ہو گئے کہ میں نے سو چا تک نہیں تھا ۔دوسال یہی کیفیت رہی ۔پھر ایک روز وہ میرے گھر ڈنڈا لیکر کر آگیا کہ تونے مجھے یہ بڑی لعنتی با ت بتا دی ہے ،میں اتنا تنگ آ گیا ہو ں ، اتنے پیسے میرے پا س آنے لگے ہیں کہ میں بھرتا نہیں ہو ں، اب میں نے دینے بند کر دیئے ہیں ،دیتے جائو توآتے جاتے ہیں یہ کیا فلسفہ ہے میں نے کہا کہ اس کا علم تو مجھے نہیں میں تو ابھی پوچھ رہا ہوں اور سیکھ رہا ہوں کہ یہ کیسے ہوتا ہے ، میں نے زندگی میں عجیب و غریب بات دیکھی ہے کہ آپ جو دیتے رہیں گے وہ لوٹ کر واپس آتا رہیگا ۔یہ صدائے با ز گشت ہے ۔
آئی ایم ایف سے نجات کا آسان طریقہ
Apr 22, 2016