’’ چھوٹو گینگ پال جمہوریت؟‘‘

Apr 22, 2016

اثر چوہان

سپریم کورٹ کے جج، مسٹر جسٹس امیر ہانی مسلم نے "Land Computerization" سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ’’لینڈ کمپیوٹر آئی زیشن‘‘ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہُوئے سندھ میں زمینوں کے معاملات درست نہ کئے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ پندرہ ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود صوبہ سندھ کے ایک بھی ضلع کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہوسکا‘‘
’’قائمقام ‘‘۔قائم علی شاہ!
جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ ’’ جب تک مسٹر شاہ ( وزیراعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ) رہیں گے ، سندھ کے حالات درست نہیں ہوں گے ‘‘۔ انتہائی احترام کے ساتھ جسٹس امیر ہانی مسلم کی خدمت میں گذارش ہے کہ یومِ ولادت حضرت علیؓ سے دو دِن پہلے اُنہوں نے قائم علی شاہ صاحب کی حکمرانی پر اُن کے خلاف تبصرہ کر کے سات سمندر پار علاج کے لئے لندن میں مقیم جناب ’’ آصف علی‘‘ زرداری کی مردم شناسی پر چوٹ کی ہے کہ اُنہوں نے سیّد قائم علی شاہ کو سندھ کا وزیراعلیٰ کیوں مقرر کِیا؟
سیّد قائم علی شاہ فاتح سندھ محمد بن قاسم کے دَور کی یادگار ہیں ۔ ’’ مسٹر شاہ ‘‘ آصف علی زرداری کے قائمقام ہیں۔ اُستاد شاعر راسخؔ کو اُن کے محبوب نے اپنا قائمقام بنایا تو اُنہوں نے کہا تھا …؎
’’چُھری مجھ کو دے دو، گلا کاٹ لُوں گا
کروں گا مَیں ، قائم مقامی تمہاری‘‘
میری درخواست ہے کہ جسٹس امیر ہانی مسلم صاحب ایسا انتظام کردیں کہ جناب آصف علی زرداری ، ’’مسٹر شاہ‘‘ کی قدِ آدم تصویر سے مخاطب ہو کر کہیں کہ…؎
’’ایسا کہاں سے لائوں، کہ تُم سا کہیں جسے؟‘‘
خورشید شاہ کی بُھول چُوک
خبر ہے کہ ’’ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف 20 اپریل کو 64 سال کے ہوگئے لیکن اپنی سالگرہ کا دِن بھول گئے اور جب اُن کے چیمبر سٹاف نے شاہ صاحب کی توجہ دلائی تو اُنہوں نے کیک منگوا کر کاٹا‘‘۔ سیّد خورشید شاہ اپنی سالگرہ کا دِن اِس لئے بھول گئے ہوں گے کہ وہ ہر وقت اپنی پارٹی کی بہتری کے لئے سوچتے رہتے ہیں ۔ ایک فلمی شاعر نے شاید شاہ صاحب کی طرف سے کہا تھا کہ…؎
’’ہم بھول گئے ہر بات ، مگر تیرا پیار نہیں بھولے‘‘
’’ چھوٹو گینگ پال جمہوریت؟‘‘
پاک فوج کا آپریشن ’’ ضربِ آہن‘‘ کامیاب رہا۔ غلام رسول عرف چھوٹو اور اُس کے گینگ میں شامل 12 ڈاکوئوں نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دئیے ، فوج نے انہیں زندہ گرفتار کرلیا ۔گینگ سے وابستہ 24 خواتین اور 44 بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیا اور پنجاب پولیس کے 24 مغوی پولیس اہلکاروں کو بھی بحفاظت بحال کرالیا ۔ بے چارے پولیس اہلکار جِن کے پاس چھوٹو گینگ کے پاس جدید ترین اسلحہ کی نسبت روایتی اسلحہ تھا اور کھانے پینے کے لئے بہت ہی کم سامان تھا اور وہ 7 اہلکار جو شہید ہوگئے اُن کے لواحقین بھی کیا سوچتے ہوں گے؟ غلام رسول نام کے چھوٹو کے سہولت کار کون ہیں؟ وہ تو چھوٹو اور اُس کے 12 حواریوں سے تفتیش کے بعد ہی پتہ چلے گا۔
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بتایا کہ ’’جِس جزیرے پر چھوٹو گینگ کا قبضہ تھا اُس پر اب پاک فوج کا قبضہ ہے۔ ابھی ڈاکوئوں کے تین گینگ باقی ہیں ، جِن کی گرفتاری کے لئے گھیرا تنگ کِیا جا رہا ہے اور ہم انہیں بھی ختم کر کے دم لیں گے‘‘۔ جنرل باجوہ نے یہ بھی بتایا کہ جزیرے اور اُس کے ملحقہ علاقے میں کئی "No Go Areas" تھے، اِس لئے فوج کو آپریشن کرنا پڑا ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پنجاب میں ’’ کچے کے علاقے میں ‘‘ چھوٹو گینگ اور ڈاکوئوں کے کئی دوسرے گینگ پھل پھول رہے تھے لیکن خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف کی حکومت اور اُن سے پہلے کے وزرائے اعلیٰ کی حکومتوں نے کسی بھی گینگ کے خلاف ’’ پکا آپریشن ‘‘ نہیں کِیا۔ ’’ جمہوریت کے تسلسل ‘‘ کے لئے اِس طرح کی بھول چُوک ہو ہی جاتی ہے۔
"No Go Area" عام لوگوں کے لئے ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے ۔ اِس طرح کا علاقہ حکمران طبقہ کے رہائشی علاقے کو بھی کہا جاتا ہے بعض جرائم پیشہ طاقتور لوگ بھی اپنے زیر اثر علاقے کو ’’نو گو ایریا‘‘ کا درجہ دے کر اُسے عام لوگوں بلکہ قانون نافذ کرنے والے کمزور اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کو اُن کے قریب پھٹکنے نہیں دیتے ۔’’ چھوٹو‘‘ نام سے تو انکسار جھلکتا ہے ، جن بڑے ناموں والے لوگوں نے ’’ اقتدار اور اقتدار کے بغیر‘‘ چھوٹے بڑے جزیرے بنا رکھے ہیں وہاں بھی پولیس آپریشن کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی۔ فوج کو ہی یہ فریضہ انجام دینا پڑتا ہے ۔ ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کہتے ہیں…؎
’’ کہیں کِبیرے، کہیں صغِیرے
اپنے طریقے، اپنے وَتِیرے
پَھیل گئے ہیں، دِھیرے دِھیرے
کِتنے چھوٹو، کِتنے جزِیرے‘‘
6 اپریل 2007ء کو اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے لال مسجد اور اُس سے ملحقہ اپنی اہلیہ امِ حسّان کی پرنسپل شپ میں جاری و ساری ’’جامعہ حفصہ ‘‘ میں اسلحہ بردار شدت پسندوں کو جمع کر کے اور خود ’’ امیر المومنین‘‘ کا لقب اختیار کر کے پورے ملک میں شریعت نافذ کرنے کا اعلان کردِیا تھا ۔ لال مسجد میں شرعی عدالت بھی قائم کردی تھی اور اعلان کردِیا تھا کہ ’’اگر حکومت (صدر پرویز مشرف اور مسلم لیگ ق کی حکومت ) نے شریعت کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ ڈالی تو پورے ملک میں خود کش حملے ہوں گے‘‘۔
7 جولائی کو صدر جنرل پرویز مشرف کے حکم سے "No Go Area" / جزیرہ لال مسجد میں چھپے ہُوئے دہشت گردوں کے خلاف فوج نے آپریشن کِیا جس کے نتیجے میں جنرل (ر) پرویز مشرف آج تک مولانا اُلعزیز کے بھائی ، لال مسجد کے نائب خطیب غازی عبدالرشید کے قتل کا مقدمہ بھگت رہے ہیں ۔ غلام رسول عرف چھوٹو نے ’’ امیر المومنین‘‘ کا لقب اختیار نہیں کِیا تھا اِس لئے فوج کے لئے چھوٹو گینگ یا اُسی طرح کے دوسرے گینگ کے خلاف آپریشن کرنا آسان تھا۔
مختلف قسم کے گینگ پالنا حکمرانوں/ سیاستدانوں کا ’’ نظریۂ ضرورت‘‘ ہوتا ہے ۔ بھتّا خوروں، قبضہ گروپس، ٹارگٹ کلرز اور اغوا ء کاروں کو اگر حکمرانوں اور با اثر سیاستدانوں اور انتہا پسند مذہبی لیڈروں کی سرپرستی نہ ہو تو کوئی ’’ چھوٹو یا بڑا گینگ‘‘ پروان نہیں چڑھ سکتا ۔ کسی دَور میں حکومت کی طرف سے زراعت پیشہ لوگوں کو بھیڑ/ بکری پال اور گھوڑی پال سکیموں کے تحت زمین الاٹ کی جاتی تھی لیکن ’’ گینگ پال جمہوریت‘‘ میں کسی بھی "Gangster" (مجرموں کے سربراہ) کو سرکاری طور پر زمین الاٹ نہیں کی جاتی، صِرف اِتنا اشارہ کِیا جاتا ہے کہ ’’ایہہ گھوڑا تے ایہہ میدان!‘‘۔ ہر قسم کے گینگ اور ان کے سرداروں کا خاتمہ صِرف اور صِرف فوج کو کرنا پڑتا ہے لیکن فوج کے بارے میں ’’ جمہوریت پسند‘‘ لیڈروںکی طرف سے یہی کہا جاتا ہے کہ ’’فوج اپنی آئینی حدود میں رہے اور جمہوریت کونہ چھیڑے ‘‘۔ اِس موقع پر کسی مغربی مفکر کے ’’قولِ فیصل ‘‘ کی جُگالی بھی کی جاتی ہے کہ ’’ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے ‘‘۔ کبھی کبھی کسی جزیرے یا "No Go Area" کے مالک اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر پنجاب کی کوئی محتاط خاتون کہتی ہے کہ…؎
’’ گَلّ سُن ہیرا پھیرِیا وے
کِتے کوئی کھول نہ دیوے
تیرا، نو گو ایرِیا وے!‘‘

مزیدخبریں