تین ہفتے سے راجن پور اپریشن جاری تھا۔پولیس کے نوجوانوں کی 8لاشیں وصول کر کے 24مغویوں کی زندگی موت کے بارے میں پوری قوم پریشان تھی۔ آرمی کو بلایا گیا۔جب ہر سو ٹینکوں،بکتر بند گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں کی آواز سنائی دی اور نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہا تو غلام رسول عرف چھوٹو نے سب مغویوں کو بخیر و عافیت رہا کر کے اپنے ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈالدئیے۔اچھی خبر تھی مگر اسکے ساتھ ہی کراچی میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور 7پولیس جوانوں کی شہادت کی اطلاع نے قوم کو پھر سے ہلا کر رکھ دیا۔اربابِ اقتدار اور سیاسی اکابرین نے رٹے رٹائے ’ شدید مذّمت‘ اور دہشت گردوں کو ’کیفر کردار‘ تک پہنچانے کے بیانات داغے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے شہیدوں کے خاندانوں کی امداد کیلئے توہین آمیز لفظ ’’معاوضے‘‘کا اعلان بھی کیا گیا۔ وہ آج مادر وطن کی گود میں جا سوئے اور ہم ’’ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں‘‘۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس و دیگر تمام فورسز نہائیت بے جگری سے لڑ رہی ہیں۔وہ اپنے اندر بہتری لانے کی بھی کوشش کررہی ہیںمگر من حیث القوم انہیں وہ سپورٹ نہیں مل رہی جو مل سکتی ہے اور جس سے بہت ساری جانیں بھی بچائی جا سکتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ نہ تو حکومت کے روّیے اتنے سنجیدہ اور Result Orientedہیں جتنے ہونے چاہیں اور نہ ہی سوسائٹی اپنا رول ادا کر رہی ہے۔بلکہ سوسائٹی اسی طرح لا تعلق ہے، جیسے امن کے دنوں میں ہوا کرتی تھی۔ہم موجودہ اور خصوصاً مستقبل کے ممکنہ حالات کا فی الوقت ادراک ہی نہیں کر پا ئے۔سکیورٹی کے موضوع پر ابھی بھی ہم خانہ پری سے زیادہ آگے نہیں جاسکے۔ ہم سمجھ ہی نہیں پائے کہ تحفظ عامہ ایک ماحول کا نام ہے جو ہر عزم کے تکمیل کی اساس ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں سب سے اعلی ترجیح تحفظ مجرمان، دوسرے درجے پر تحفظِ خواص، اور آخری ترجیح تحفظ عامہ کو دی جاتی ہے۔یہ وہ روّیے ہیں جن کی وجہ سے آج نہ صرف راجن پور ، کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ بلکہ ہر جگہ پر مجرموں کے گینگ نظر آ رہے ہیں۔
یہ گینگ کلچر اب پنجاب میں بھی عام ہو چکا ہے ۔ کسی کو شک ہو تو رات کے وقت لاہور سے 30/40 کلومیٹر دور، مین شاہراہوں سے ذرا ہٹ کر، تھوڑا سفر کر کے دیکھ لے۔پھر لاہور کے اندربھی ایک ایک بنگلے میں10/15آدمی ہتھیار بند موجود ہیں جن کا پولیس کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں اور نہ ہی انکے چال چلن کی کوئی تصدیق وغیرہ ہے۔اسی طرح دیگر شہروں میں بھی گینگ موجود ہیں۔کیا حکومت کو اسکا علم نہیں؟ مجھے قانون دان بتا دیں کہ جن لوگوں کو پچھلی حکومت نے ایک ایک فرد کے نام پر دو دو سوکلاشنکوف دی تھیں، وہ کس اتھارٹی پر اپنے نوکروں اور جرائم پیشیہ لوگوں سے ہتھیار اٹھوائے ہوتے ہیں۔قانون کیمطابق یا تو لائسنس حاصل کرنیوالا ہتھیار اٹھا سکتا ہے یا وہ Retainer جسکی ٖفوٹو پر مہر لگا کر ہوم ڈیپارٹمینٹ نے اجازت دے رکھی ہو۔اسلحہ اپنے ملازم کو اٹھوانے کا اختیار صرف حکومت یا لائسنس یافتہ پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں کے پاس ہوتا ہے۔بلاشبہ پورے ملک میں چھوٹے بڑے گینگ موجود ہیں۔اب ہی ان پر قابو پانے کی کوشش کر لینی چاہیے ۔چند تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔
1۔میں یقین رکھتا ہوں کہ’’ دہشت گردوں پر اسوقت تک قابو نہیں پایا جا سکتا جب تک کہ ان سے پہل (Initiative)نہ چھین لیا جائے اور یہ اسوقت تک ممکن نہیں جب تک کہ پبلک کو باعزت اور عملی طور پر اس عمل میں شامل نہ کیا جائے‘‘۔ابھی تک ہم Reactive ہی ہیں۔ہماری پولیس کو Proactive ہونا ہوگا۔ہر تھانے کی سطح پر ایک اچھا پبلک انٹیلیجنس نیٹ ورک تیار کیا جائے ۔ لوگوں کواپنی گلیاں دہشت گردوں اور مجرموں کی پناہ گاہ وغیرہ بننے سے محفوظ رکھنے کی ترغیب دینی چاہیے۔
2۔تھانے میں ہر بیٹ انچارج اپنے علاقے میں موجود ہتھیار اور ہتھیار اٹھانے والے کے کوائف اپ ڈیٹ کرتا رہے۔جس سے علاقے کی پوزیشن بھی واضع ہو جائیگی او ر ہر قسم کی تبدیلیوں پر نظر بھی رکھی جا سکے گی۔
3۔پولیس ریفارمز میں تھانے کو عام روٹین ڈیوٹی کیلئے تعینات نفری کے علاوہ،دو موبائیلوں پر مشتمل Patrolling/QRF اور کم از کم ایک پلاٹون Planned Operation Forceدی جائے جو بہتر ہتھیاروں اور ٹریننگ کی بنیاد پر قدرے بڑے اپریشن میں اترنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔مختلف تھانوں سے انجان علاقے میں لائی گئی سپاہ کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔
4۔کسی ایک فرد کے نام پر3/4اسلحہ لائسنس کے علاوہ باقی تمام پرمٹ و لائسنس فوری طور پر کینسل کئے جانے چاہیں۔اور اسلحہ ہولڈر کو مناسب وقت دیا جائے کہ وہ اسے اسلحہ ڈیلر کے ہاتھ بیچ سکے تاکہ اسکا مالی نقصان نہ ہو۔
5۔کسی علاقے میں مسلح گروہوں کی تشکیل کا فوری اور سخت نوٹس لیا جائے۔ذمہ دار افرادکو سخت سزا دی جائے اور ایسے گروہوں کا فوری صفایا کیا جائے۔ پلاننگ کے بغیر کوئی اپریشن نہ کیا جائے۔
6۔اب ہمارے پاس بلدیاتی نمائندے ہر جگہ موجود ہیں۔انہیں سکیورٹی کی ذمہ داریوں میںبھی شامل کیاجائے بلکہ یہ انفارمیشن کا ایک اچھامتبادل نظام فراہم کر سکتے ہیں۔
’’جب ہتھیار آسانی سے دستیاب ہوں، حکومت کا ڈرنہ ہو،انصاف مفقود ہو، تحفظ اپنی ذمہ داری ہو، سوسائٹی کمپرومائزڈ ہو اور بڑے لوگوں کی پشت پناہی میسر ہو،تو مجرموں کے گینگ بننا فطری سی بات ہے‘‘ مگر اس سے پہلے کہ یہ نا سور جڑیں پکڑے قومی جسم کو اس سے پاک کرنا ہوگا۔اسکے ساتھ ساتھ یاد رہے کہ جتنے چھوٹوپکڑیں گے اتنے ہی اور بن جائینگے تاوقتیکہ مجرموں کو پالنے والے ، ان سے کام لینے والے ، تھانہ کچہری میں انکی مدد کرنیوالے اور کسی طرح بھی انہیں چھپانے والوں کیخلاف تباہ کن ایکشن نہیں لیا جاتا۔ پوری قوم کو یہ فرض تمام سیاسی و دیگر مصلحتوں سے بالا تر ہو کر ادا کرنا ہو گا۔