سیاستدان ٹیسٹ کھیل رہے تھے فوجنے ٹی 20 بنادیا:بی بی سی

اسلام آباد (بی بی سی+ نیٹ نیوز) پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف جاری میچ کو سیاست دان تو یقیناً پانچ روزہ ٹیسٹ میچ سمجھ کر کئی دہائیوں سے کھیل رہے تھے لیکن فوج کی جانب سے اپنے اعلیٰ افسروں کے خلاف کارروائی نے اسے ٹی 20 کا کھیل بنا دیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق سوشل میڈیا پر اس سنسنی خیز چھکے نے جنرل راحیل شریف کو ایک بار پھر سب سے بڑا ٹرینڈ بنا دیا ہے۔ پاک فوج کی تاریخ رہی ہے کہ کبھی کوئی کام بغیر سوچے سمجھے نہیں ہوتا، وہاں اندرونی سوچ بچار کے میکینزم بڑے جاندار اور جامع رہے ہیں۔ پچ جیسی بھی ہو فوج اس کا استعمال انتہائی مہارت سے کرتی ہے۔ چھ اعلیٰ افسروں کی برطرفی یقیناً کوئی ایسا فیصلہ نہیں تھا جو یک لخت سامنے آگیا ہو۔ اس کے لئے جنرل راحیل شریف نے گذشتہ دنوں اپنے دورہ شمالی وزیرستان کے دوران ہی پچ ہموار کر دی تھی۔ شوال کے گھنے جنگلات میں سپاہیوں سے خطاب کے دوران پورے ملک میں بلا امتیاز مالی احتساب کے بیان پر حیرت واجب تھی۔ ہر کوئی اسے پانامہ لیکس کے ساتھ جوڑ رہا تھا، لیکن دراصل جنرل راحیل کے ذہن میں ان افسروں کی سمری تھی جس پر وہ شاید ہیلی کاپٹر پر سوار ہونے سے پہلے دستخط کر آئے تھے۔ جنرل راحیل کے بیان نے حسب معمول پاکستانی میڈیا کو طوفان کی صورت نرغے میں لے لیا۔ پانامہ لیکس کے موضوع کو نئی زندگی مل گئی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیائی زبان کے مطابق ’پرانا‘ ہوتا جا رہا تھا۔ بی بی سی کے مطابق انہوں نے اس موضوع پر ملک کے سب سے طاقتور ادارے کی رائے دوٹوک انداز میں واضح کر دی تھی۔ اس وقت فوج بولنگ کرا رہی تھی اور فوجی سربراہ نے ایسی گگلی کرائی کہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ دیا۔ بیان میں نہ پانامہ کا ذکر تھا اور نہ کسی کے خاندان کے بیرون ملک اثاثوں کا حوالہ۔ مختصر الفاظ میں مطلب تھا کہ بس بہت کرپشن ہو گئی۔ اکثر لوگوں کی رائے میں فوج نے اپنی تاریخ میں ایسا میچ پہلی بار سب کے سامنے کھیل کر غیرمعمولی قدم اٹھایا ہے۔ اس سے قبل جب بھی فوج کے اندر احتساب کے بارے میں سوال ہوتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ یہ مسلسل عمل ہے جو ہر وقت جاری رہتا ہے۔ اسے سرعام محض اس لیے نہیں کیا جاتا کہ اس سے فوج کے وقار اور مورال پر انتہائی منفی اثر پڑے گا لیکن فوج نے کھل کر برطرفیوں کا اعلان کر کے ماضی کی تاریخ تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مورال پر اثر انداز ہونے کا تاثر تبدیل کر دیا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت جب جنرل راحیل نے ایک اور بیان میں دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں کے دائرے کو قبائلی علاقوں کے علاوہ دیگر علاقوں تک پھیلانے کا حکم دیا تھا۔ جنرل راحیل کی کئی چیلنجوں سے بیک وقت نمٹنے کی ان کوششوں کو نیک نیتی سے دیکھا جا رہا ہے، لیکن ساتھ امید کی جا سکتی ہے کہ مختلف علاقوں میں اراضی کا مبینہ غلط استعمال جیسے کیسوں کا بھی کچا چٹھا سامنے لائے گی۔ شفافیت کے فوائد سے شاید ہی کسی کو انکار ہو۔ جنرل صاحب کی واہ واہ ہو رہی ہے لیکن اب گیند سیاست دانوں کے کورٹ میں نہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان تو لندن بڑا چرچا کر کے گئے تھے کہ آف شور کمپنیوں کے کھاتوں کے ماہرین سے مشورہ کرنے جا رہے ہیں لیکن واپسی پر کوئی زیادہ پرعزم دکھائی نہیں دے رہے۔ اس تمام بحث میں اس پر بات اب بھی نہیں ہو رہی ہے کہ ٹیکس بچانے اور ملکی سرمایہ باہر لے جانے والوں سے کیسے نمٹا جائے۔ دیکھنا ہے کہ نواز شریف کی ٹیم مسلم لیگی ٹائیگرز کس طرح کھیلتی ہے۔ کیونکہ میچ ابھی جاری ہے۔ بی بی سی کے مطابق پانامہ کی لا فرم موساک فونسیکا کی جانب سے افشا ہونے والی ایک کروڑ دس لاکھ دستاویزات میں دنیا بھر کے سیاست دانوں اور کاروباری شخصیات کے تعلقات، آف شور کمپنیوں اور اکاؤنٹس کے بارے میں پتہ چلا۔ ان تمام شخصیات میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی شامل ہے۔ بی بی سی کے مطابق پانامہ لیکس ایسے وقت میں سامنے آئیں جب نواز شریف فوج کے خلاف حالیہ جنگ کے بعد پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔ افشا ہونے والی دستاویزات کے مطابق نواز شریف کے تین بچوں کی آف شور کمپنیاں اور اثاثے ہیں جو ان کے خاندانی اثاثوں میں ظاہر نہیں کئے گئے تھے۔ آف شور کمپنیوں کی شناخت تین برٹش ورجن آئی لینڈ کی نیسکول لمیٹڈ، نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور ہنگون پراپرٹی ہولڈنگز لمیٹڈ کمپنیوں کے نام سے ہوئی جنہیں بالترتیب 1993، 1994 اور 2007 میں بنایا گیا تھا۔ ان کمپنیوں کو غیر ملکی اثاثے حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا جن میں لندن کے مے فیئر میں پارک لین کے قریب اپارٹمنٹس کی خریداری شامل ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ان الزامات نے نواز شریف کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ یہ کمپنیاں کالا دھن سفید کرنے، چھپانے یا ٹیکسوں سے بچنے کے لیے بنائی گئی تھیں۔ دوسری جانب دنیا بھر میں سیاسی رہنماؤں سے مستعفی ہونے کے لیے ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کی وجہ سے ان پر بھی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ افشا پانامہ لیکس کی وجہ سے مسلم لیگ ن میں کھلبلی مچ گئی، نواز شریف کے غیر متوقع دورۂ لندن کے پیچھے بھی یہی بڑھتا ہوا دباؤ دکھائی دے رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ شخصیات کے خیال میں وزیر اعظم نواز شریف کے نام پر کوئی آف شور کمنی یا اثاثے سامنے نہیں آئے اس لیے انہیں اس چیز کے لیے جوابدہ نہیں ہونا چاہیے جو ان کے بیٹوں کی ملکیت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افشا ہونے والی دستاویزات کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی جرم سرزد ہوا ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے اور ان الزامات کی انکوائری چیف جسٹس سے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں انھوں نے عوامی احتجاج اور لاہور میں نواز شریف کے گھر کا گھیراؤ کرنے کی دھمکی بھی دی۔ اس کے بعد تو تو میں میں کی فضا قائم ہو گئی اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر ذاتی حملے ہونے لگے۔ حزب مخالف کی بڑی جماعتوں نے بھی چیف جسٹس کی زیر نگرانی تحقیقات کا مطالبہ تو کیا لیکن وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے یا عوامی سطح پر احتجاج میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے۔ بدعنوانی کے الزامات 1980 کی دہائی سے نواز شریف کا پیچھا کرتے رہے ہیں، پانامہ پیپرز میں افشا ہونے والے الزامات میں سے زیادہ تر 1990 کی دہائی کے اوائل میں ان کے خلاف ہونے والی وفاقی سطح پر تفتیش میں شامل تھے۔ نواز شریف نے 1997 میں جب اقتدار سنبھالا تو انھوں نے اس انکوائری کو ’سیاسی خواہش‘ قرار دیتے ہوئے بند کرنے کا حکم دیا لیکن اس بار انھیں اور ان کے خاندان کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ غیرملکی اثاثوں کے حصول کے لیے آف شور کمپنیوں کا استعمال کرتے رہے ہیں۔ آرمی چیف کے بیان پر بعض کا کہنا ہے کہ یہ صرف موجودہ حالت میں اظہار یکجہتی کے لیے تھا، چند سابق فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ یہ بیان ان کا ارادہ ظاہر کر رہا ہے۔ سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کے مطابق گلی،گلی مظاہروں کے آغاز کی وجہ سے پاکستان کے اندرونی تنازعات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول حکومت اور حزب مخالف کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، اِن ہاؤس تبدیلی آسکتی ہے یا پھر ان کے مطابق خاص مدت کے لیے فوج کا حمایت یافتہ سویلین نظام لایا جا سکتا ہے تاکہ مسائل کا خاتمہ کیا جا سکے تاہم زیادہ تر امکان جس صورت حال کا ہے وہ یہ کہ نواز شریف فوج کو مزید اختیارات حوالے کرنے کے بعد بطور کمزور رہنما حکومت ہی میں رہیں۔ پاکستان کی فوج اور جمہوریت کے درمیان تذبذب احتساب کے آزادانہ نظام میں رکاوٹ رہا ہے۔ کئی ملٹری حکمران کرپشن اور احتساب کو مخالف سیاست دانوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق 1980 کی دہائی میں اپنے دور اقتدار کے دوران اس معاملے کو سیاست دانوں کی نئی قسم اور ایک ایسے معاشی طریقہ کار کا نظام لا کر جس کے تحت سرکاری فنڈز میں خوردبرد قابل قبول ہو ایک قدم آگے بڑھ گئے۔ ایسا معاشرہ جہاں خاندان اور قبیلوں کے تعلقات کی بنا پر ملازمتوں کی تقسیم اور سرکاری سرپرستی ہوتی ہو وہاں سیاسی بدعنوانی پھیلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ سیاست دان شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ صرف انھی کو بدعنوانی کے خلاف مہم چلا کر نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ عدالتی نظام اور فوج مبرا سمجھی جاتی ہے جبکہ عدلیہ اور فوج کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اندرونی احتساب کا نظام موجود ہے اور انھیں حکومتی کنٹرول کی ضرورت نہیں۔ اس تمام صورت حال میں جب کہ پاکستان ایک کے بعد ایک الجھن میں مبتلا ہے، جمہوریت، قانون کی بالادستی اور صحیح احتساب کی منفی تعبیر سامنے آ رہی ہے۔
بی بی سی

ای پیپر دی نیشن