اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) وزیر اعظم نواز شریف کی منظوری سے دو جرنیلوں کو کرپشن کے الزام میں انتظامی حکم کے تحت جبری ریٹائرمنت کی سزا سنائی گئی ہے۔ دیگر چار افسران کی سزا کیلئے بھی اسی طریقہ کار کے تحت وزارت دفاع کے توسط سے وفاقی حکومت کی منطوری حاصل کی گئی۔ ذرائع کے مطابق تمام سزا پانے والے افسران کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی۔ سزا پانے والے افسران کے پاس آرمی ایکٹ کے تحت اپیل کا حق نہیں کیونکہ ان کا کورٹ مارشل نہیں ہوا تاہم وہ سزا کے خلاف اعلیٰ سول عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں مدت ملازمت پوری کر کے سبکدوش ہونے والے فوج کے ایجو ٹینٹ جنرل لیفٹننٹ جنرل ضمیر الحسن نے تمام افسران کے خلاف الگ الگ تحقیقات مکمل کرا کر سفارشات سمیت آرمی چیف کو بھجوائیں۔ تمام افسران کیلئے الگ انکوائری بورڈ تشکیل دئے گئے جنہوں نے اپنی رپورٹ میں الزام کی تفصیل، الزامات کی صحت، الزام درست ہونے کی صورت میں ثبوتوں کی تفصیل ،اپنا ریکارڈ، ملزموں سے وصول ہونے کی صورت میں رقم کی تفصیل اور سزا کے بارے میں سفارشات پیش کیں۔ چونکہ ملزم افسران میں ایک لیفٹننٹ جنرل بھی شامل تھے اس لئے انکوائری بورڈ کی سربراہی کیلئے مذکورہ سینئر لیفٹننٹ جنرل کا انتخاب کیا گیا۔ یہ سفارشات آرمی چیف کو پیش کی گئیں جنہوں نے لیفٹیننٹ جنرل اور میجر جنرل کی سزا کیلئے اپنی سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کیں جنہوں نے ان کی منظوری دی۔ اس ذریعہ کے مطابق آرمی ایکٹ کے مطابق جی ایچ کیو کے پاس انکوائری بورڈ کی سفارشات موصول ہونے کے بعد دو آپشن ہوتے ہیں۔ پہلا یہ تحقیقاتی نتائج کی روشنی میں ملزم افسران کا کورٹ مارشل کیا جائے یا انتظامی حکم کے تحت سزا سنائی جائے۔ طوالت سے بچنے کیلئے ان تمام چھ افسران کو آرمی چیف کے انتظامی حکم کے تحت جبری ریٹائرڈ کیا گیا۔سزا یافتہ افسران کو کورٹ مارشل کی صورت میں آرمی چیف کے پاس اپیل کا حق حاصل تھا تاہم اس حکم کے خلاف وہ اپیل نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ناصر الملک نے اپنے ایک فیصلہ میں قرار دیا تھا آرمی ایکٹ کے خلاف اپیل نہ کر سکنے والے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کر سکتے ہیں چنانچہ این ایل سی کیس میں ملازمت سے برطرف ہونے والے میجر جنرل خالد ظہیر اختر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر کے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب رہے جس کے خلاف فوج نے ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔