اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) سوال یہ ہے سزا پانے والے فوجی افسران کے خلاف تحقیقات کی وجہ کیا بنی؟۔ تحقیقات مہنگی سپورٹس کار کی خریداری اور اس کو حادثے میں ہلاکتوں سے شروع ہوئی۔ ایف سی بلوچستان ہمیشہ سے بدعنوانی کا ذریعہ ہونے کیلئے بدنام رہی ہے کیونکہ یہ فورس صوبہ میں قیام امن اور سمگلنگ کی روک تھام کی ذمہ دار ہے۔ بلوچستان کے ساتھ افغانستان اور ایران کی سرحد لگنے کی وجہ سے یہ واحد صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ سمگلنگ ہوتی ہے۔ بدعنوانی کا رحجان رکھنے والے سفارشوں سے یہاں ڈیوٹی لگواتے ہیں جبکہ دیانت دار افسر یہاں سے تبادلہ کرانے کیلئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ فوجی یونٹوں کی فیلڈ انٹیلیجنس یونٹیں، ملٹری انٹیلیجنس اور آئی ایس آئی اپنی سطح پر بدعنوانی اور اختیارات سے تجاوز کی رپورٹس اپنے دفاتر کو بھجواتی ہیں جو جی ایچ کیو کو ارسال کر دی جاتی ہیں جہاں مجاز افسر ان اطلاعات کی صحت کو مدنظر رکھ کر مزید تحقیقات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عبیداللہ خٹک کی آئی جی ایف سی تعیناتی تک ان کے خلاف کوئی خاص شکایت نہیں تھی لیکن ان کی ترقی کے بعد گزشتہ معاملات کی چھان بین کے بعد تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا جو ان کی سزا پر منتج ہوا۔ میجر جنرل اعجاز شاہد کے خلاف تحقیقات ایک المناک حادثہ کے بعد شروع ہوئیں۔ میجر جنرل نے اپنے بیٹے کیلئے ایک مہنگی سپورٹس کار خریدی جسے جانچ پرٹال اور ڈرائیونگ کیلئے انہوں نے اپنے ماتحت لیفٹیننت کرنل فیصل شکیل کے سپرد کیا جنہوں نے ڈرائیونگ ٹیسٹ کیلئے میجر یاسر کو بھی ساتھ بٹھا لیا۔ کار ان کے قابو میں نہ رہی اور دونوں افسر اس حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ مرحومین کی بیوائوں نے اس حوالہ سے ایک خط آرمی چیف کو لکھا جس میں انہوں نے میجر جنرل اعجاز شاہد کو اس حادثہ کا ذمہ دار قرار دیا جس پر انہیں منصب سے ہٹا کر تحقیقات شروع کی گئیں تو یہ سوال بھی پیدا ہوا مہنگی سپورٹس کار خریدنے کیلئے ان کے پاس رقم کہاں سے آئی۔ یہیں سے ثابت ہوا ان کے وسائل، ان کی آمدن سے زائد تھے جس پر انہیں سزا ملی۔ اسی طرح بریگیڈئر اسد شہزادہ، بریگیڈئر عامر، بریگیڈئر سیف اللہ اور لیفٹیننٹ کرنل حیدر کے خلاف رپورٹس کی بنیاد پر کارروائی کی گئی تو مزید شواہد سامنے آئے جو ان کی سزا کی بنیاد بنے۔