اسلام آباد (جاوید صدیق) سپریم کورٹ نے پانامہ پیپرز کے حوالے سے جمعرات کے روز جس فیصلے کا اعلان کیا ہے اس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج نے اپنے فیصلے میں میڈیا کی آزادی کے بارے میں تبصرہ کیا ہے۔ فاضل جج نے لکھا ہے کہ اس کیس میں عوام اور میڈیا نے گہری دلچسپی لی اور یہ دلچسپی توقعات سے کہیں بڑھ کر تھی۔ کیس میں اس دلچسپی اور توجہ کی وجہ سے کئی آراءقانونی طورپر اغلاط سے عبارت تھیں۔ غلط قانونی تصورات پیش کئے جاتے رہے اور غلط فیصلے کی پیش گوئیاں کی جاتی رہیں۔ یہ غلط تصورات ٹی وی میڈیا کی نشریات میں سرشام سنائی دیتے رہے۔ اس دوران کیس پر تبصروں اور میڈیا کی کوریج پر قدغنیں لگانے کی خواہش کی مزاحمت کی گئی۔ فاضل جج نے لکھا ہے کہ آزادی رائے کے اظہار کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 19 میں دی گئی ہے عدالت اس حق کا دفاع کرنے کی پابند ہے۔ ایک کھلی عدالت ہمارے قانونی نظام کا جوہر ہے اس لئے عدالتی کارروائی پر تبصروں پر پابندی لگانا ایک کھلی عدالت کے بنیادی تصور کے منافی ہے۔ عدالت مقبولیت پسندی کے سامنے سرنگوں نہیں ہو سکتی۔ ہم مقبول فیصلے کرنے کی بجائے قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ/ میڈیا