”وزیراعظم استعفیٰ دیں“ سینیٹ، قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا شدید ہنگامہ

اسلام آباد ( خبر نگار خصوصی+ نامہ نگار+ ایجنسیاں ) قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس شدید ہنگامہ آرائی کے بعد غیرمعینہمدت تک ملتوی کردیئے گئے‘ اپوزیشن ارکان بازوﺅں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ایوان میں آئے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے سپیکر کے ڈائس کا گھیراﺅ کیا اور استعفیٰ استعفیٰ اور الوداع الوداع نواز شریف الوداع اور گو نواز گو کی شدید نعرے بازی کی۔ ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں‘ حکومتی ارکان بھی نشستوں پر کھڑے ہو کر شیر ہے شیر ہے نواز شریف شیر ہے کی نعرے بازی کرتے رہے اور وکٹری کا نشان بناتے رہے‘ ہنگامہ آرائی ختم نہ ہونے پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا۔ ڈپٹی سپیکر نے وقفہ سوالات شروع کرانے کے لئے کہا تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بات کرنے کے لئے فلور مانگا۔ ڈپٹی سپیکر نے ان کو اجازت دے دی جس کے بعد خورشید شاہ نے کہا وزیراعظم نواز شریف ایوان میں آنا پسند نہیں کرتے تھے لیکن آج تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں۔ وزیراعظم کا ایوان میں نہ آنا ہی بہتر ہے۔ پانامہ کیس میں وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آگیا ہے اور دو ججز نے واضح طور پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا ہے جبکہ باقی تین ججز نے بھی وزیراعظم کو کلیئر نہیں کیا۔ انہوں نے کہا جے آئی ٹی ایک ڈرامہ ہے۔ ماتحت افسر وزیراعظم سے کیسے تحقیقات کرسکتے ہیں۔ نواز شریف استعفیٰ دیکر پارلیمنٹ کو بچائیں جس پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ وقفہ سوالات شروع ہوچکا ہے ۔ قانون کے مطابق تقریر نہیں کی جاسکتی جس کے بعد ایوان میں ہنگامہ شروع ہوگیا۔ اپوزیشن ارکان نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور شدید نعرے بازی شروع کردی۔ انہوں نے استعفیٰ استعفیٰ اور گو نواز گو کے نعرے لگانے شروع کئے۔ وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے کہا اپوزیشن نے اگر بات کرنی ہے تو قوانین کے مطابق چلیں۔ خورشید شاہ اتنے سینئر ہو کر بھی قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ وزیر امور کشمیر نے کہا کہ خورشید شاہ کی روزانہ باتیں سن کر تنگ آگئے ہیں۔ شیخ آفتاب نے اپوزیشن کے نعروں کے دوران اپنی تقریر جاری رکھی اور کہا کہ وقفہ سوالات میں تقریر نہیں کی جاتی رولز معطل کرنے پڑتے ہیں۔ یہ اپوزیشن کی بھول ہے کہ نواز شریف استعفیٰ دیں گے۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان ایک دوسرے پر آوازیں بھی کستے رہے۔ امجد نیازی اور مراد سعید نے چور چور کی آوازیں لگائیں۔ ہنگامے کے دوران شیخ آفتاب‘ رانا تنویر حسین‘ ریاض حسین پیرزادہ نے اپوزیشن کے رہنماﺅں خورشید شاہ‘ شاہ محمود قریشی سے مذاکرات کئے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ اور پی ٹی آئی کے رہنماﺅں شاہ محمود قریشی‘ جہانگیر ترین نے بھی آپس میں مشاورت کی۔ اس دوران وزیر برائے پارلیمانی امور نے وقفہ سوالات ختم کرانے کے لئے رولز معطل کرنے کے لئے قرارداد پیش کرنے کے لئے فلور لیا جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ جب تک سب ارکان نشستوں پر نہیں بیٹھیں گے اور ہاﺅس ڈسپلن میں نہیں آئے گا تحریک پیش کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ انہوں نے کہا اگر ارکان نشستوں پر نہیں بیٹھیں گے تو اجلاس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کردوں گا۔ شیخ آفتاب نے کہا کہ وزیراعظم کے حق میں فیصلہ سن کر یہ لوگ مایوس ہو گئے ہیں اور بلاجواز واویلا کر رہے ہیں، اپوزیشن بھول جائے کہ وزیراعظم استعفیٰ دینگے۔ شیخ آفتاب کا جارحانہ خطاب جاری تھا تو اپوزیشن ارکان ڈپٹی سپیکر کی ڈائس کے سامنے جمع ہو گئے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر خوب نعرے بازی کی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں عمران خان کو بات کرنے کی اجازت نہ دینے پر اپوزیشن ارکان نے شور شرابہ شروع کیا اور ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں جس سے ایوان مچھلی بازار بن گیا۔ ڈپٹی سپیکر اپوزیشن ارکان کو نشستوں پر بیٹھنے کا بولتے رہے لیکن کسی نے ایک نہ سنی، ڈپٹی سپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا۔ دوسری جانب سینٹ میں بھی پانامہ کا ہنگامہ شدت اختیار کر گیا، اپوزیشن کی شدید ہنگامہ آرائی اور گو نواز گو کے نعرے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ چئیرمین سینٹ ارکان کے سامنے بے بس نظر آئے۔ اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے دوران مسلم لیگ ن کے سینیٹر نثار محمد، فاٹا کے سینیٹرز تاج آفریدی اور صالح شاہ نے ایوان سے بائیکاٹ کیا جبکہ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان نے احتجاج میں حصہ نہیں لیا۔ اعتزاز احسن نے کہاکہ پانامہ لیکس کیس کا فیصلہ انتہائی سنگین ہے، دو ججز نے کہا کہ وزیر اعظم نا اہل ہوں، تین ججز نے ان کے فیصلے کی تردید نہیں کی، جے آئی ٹی میں جن اداروں کے افسران شامل کئے جائیں گے ان کے سربراہ وزیر اعظم خود مقرر کرتے ہیں۔ اپوزیشن ارکان مسلسل 20 منٹ تک "گو نواز گو " استعفیٰ' دو استعفیٰ دو" نواز شریف چور ہے چور ہے کے نعرے لگاتے رہے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر بریگیڈئیر ریٹائرڈ جان ویلیم کینتھ نے فوجی آواز میں نعرہ لگایا تو چیئرمین نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا اور کہا کہ ایوان میں فوجی انداز کا نعرہ نہ لگایا جائے۔ اعتزاز احسن نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا اس ہاو¿س کے قائد ایوان نا اہل ہیں۔ عدالتی فیصلے میں یہ نہیں کہا گیا وزیراعظم اہل ہیں بلکہ یہ کہا گیا ایک خاص طریقے سے جے آئی ٹی کے ذریعے تحقیقات ہونگی۔ انہوں نے کہا شریف خاندان نے قطری خطوط کے علاوہ کوئی ثبوت پیش نہیں کئے۔ اس وقت ہم قائد ایوان سے محروم ہیں، وزیراعظم مستعفی ہو جائیں یہ میرا نہیں پوری اپوزیشن کا مطالبہ ہے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر سراج الحق نے بات کرتے ہوئے کہا حکومت خود جرا¿ت کرکے کمشن بناتی اور وزیر اعظم خود کو احتساب کیلئے پیش کرتے۔ حکومت نے اپوزیشن کے ٹی او آرز کو قبول نہیں کیا۔ احتساب کیلئے قانون سازی کے مطالبے پر بھی عمل نہیں ہوا۔ کیا وزیراعظم کے ہوتے ہوئے تحقیقات شفاف ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا تحقیقات ہونے تک وزیراعظم اپنے منصب سے الگ ہو جائیں۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا دو ججز نے کہا نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے۔ نوازشریف اخلاقی اور قانونی طور پر وزیراعظم رہنے کا جواز کھوچکے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا سینٹ کی روایت خراب نہ کریں۔ ارکان نے جب بات نہ مانی تو چیئرمین نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا۔ سینٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا پیپلز پارٹی کو ہمیشہ نواز شریف کو سہارا دینے کا طعنہ دیا گیا لیکن درحقیقت ان کی جماعت نے ہمیشہ جمہوریت اور اداروں کا ساتھ دیا، آج ہم بھی کہہ رہے ہیں استعفیٰ دو۔ خورشید شاہ نے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتی۔ خورشید شاہ نے کہا ہم جے آئی ٹی نہیں مانتے میں کہوں گا کہ یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ گریڈ 19 کا افسر کیسے اپنے مالک کی تفتیش کرے گا۔ اس موقع پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا یہ تاریخ کا حصہ ہے، سپریم کورٹ شریف خاندان پر نرم ہاتھ رکھتی ہے اور 'مریم نواز جو سارے مسئلہ کا منبع ہیں انہیں جے آئی ٹی سے پہلے ہی فارغ کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ نے درست کہا فیصلہ برسوں یاد رکھا جائے گا۔ شریف برادران پر نرم ہاتھ رکھا جاتا ہے۔ جوڈیشل کمشن بنتا تو نوازشریف خود پیش ہوتے تو مزہ آتا۔ وزیراعظم سے استعفیٰ حاصل کرنے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی نئی حکمت عملی تیار کرے گی۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اب ہمارا مطالبہ یہی ہے اور مشترکہ اپوزیشن کا بھی مطالبہ یہی ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آزادانہ تحقیقات ہو تو ایک آزادانہ تحقیقات کے لئے اور انصاف کا بول اور علم بلند ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں۔ قبل ازیں اپوزیشن لیڈر خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینیٹر تاج حیدر، سینیٹر اعظم سواتی، اسرار اللہ زہری، فاروق ایچ نائیک، سسی پلیجو، ڈاکٹر عذرا افضل، شیریں مزاری، سراج الحق، جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، مظفر شاہ سمیت دیگر جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ نے شرکت کی۔ اجلاس میں پانامہ پیپر کے فیصلے پر مشاورت کی گئی۔ اس موقع پر خورشید احمد شاہ کا کہنا تھا کہ ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم کے مستعفی ہونے پر احتجاج کرنا چاہئے۔ اپوزیشن جماعتیں پانامہ کیس میں عدالتی فیصلے پر حکومت کیخلاف صف آراءہو گئیں‘ حکومت پر دباﺅ بڑھانے کی حکمت عملی طے کر لی گئی ‘ مشترکہ طور پر وزیراعظم محمد نوازشریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا گیا۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کےلئے اپوزیشن میں قریبی رابطوں پر اتفاق ہو گیا۔ سرفہرست جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔ اپوزیشن میں تحقیقات کو یقینی بنانے کے لئے مشاورت سے قانونی ٹیم کی تشکیل کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جو کہ تحقیقات میں ضرورت پڑنے پر معاونت فراہم کرے گی۔ حکومت پر واضح کیا گیا ہے کہ اسے کسی صورت تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا۔

لاہور+ کراچی + پشاور (نوائے وقت رپورٹ+ خصوصی نامہ نگار) سندھ اسمبلی میں وزیراعظم نوازشریف کے استعفیٰ کی قراردادمتفقہ طور پر منظور کر لی گئی جبکہ بلوچستان اسمبلی میں وزیراعظم کی حمایت میں قرارداد منظور کرلی گئی۔ سندھ اسمبلی میں قرارداد پیپلز پارٹی کے رہنما نثار کھوڑو اور تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی ثمر علی خان نے مشترکہ طور پر پیش کی۔ جس میں کہا گیا وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے انہیں استعفیٰ دینا چاہئے۔ دو ججز نے واضح کہا کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں۔ وزیراعظم کیسے افسروں کے سامنے پیش ہونگے۔ نثار کھوڑو نے کہا ڈھٹائی کی انتہا ہو گئی۔ ڈپٹی سپیکر شہلا رضا کا کہنا تھا کہ افسوس وزیراعظم کو کبھی کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ ثابت ہو گیا چور بہت طاقتور ہے۔ انہوں نے کہا پانامہ سکینڈل پر دنیا میں تین وزرائے اعظم کو ہٹنا پڑا۔ اس سے قبل ایوان میں خواجہ اظہار اور شہلا رضا کے درمیان بات کرنے کا موقع نہ ملنے پر تلخ کلامی ہوئی۔ خواجہ اظہار نے کہا یہ آپ کا گھر اور ڈرائنگ روم نہیں ہے، اس طرح کام نہیں چلے گا جس پر شہلا رضا بولیں آپ کو بات کرنی ہے تو کریں ورنہ باہر جائیں۔ نثار کھوڑو بھی جذباتی ہو گئے اور خواجہ اظہارکو تنبیہہ کی آپ اس طرح سے ڈپٹی سپیکر سے بات نہیں کرسکتے۔ اس دوران ایوان میں نو نو کے نعرے اور شور شرابا شروع ہو گیا۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا اپوزیشن میرے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لے آئے۔ تحریک انصاف نے خیبر پی کے اسمبلی میں وزیراعظم کیخلاف قرارداد جمع کروا دی۔ قرارداد تحریک انصاف کے رکن شوکت یوسفزئی نے جمع کرائی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نوازشریف کے پاس عہدے پر رہنے کا جمہوری اور قانونی جواز نہیں‘ انکوائری مکمل ہونے تک وزیراعظم کو استعفیٰ دینا چاہئے۔ اپوزیشن نے پنجاب اسمبلی میں وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبہ کی ایک قرارداد اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی‘ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کی جانب سے جمع کرائی گئی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں کے فیصلے کے مطابق وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے اور جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے تک وہ فی الفور مستعفی ہو جائیں۔ سپیکر راحیلہ درانی کی زیرصدارت بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف پر اعتماد کی قرارداد پیش کی گئی۔ قرارداد وزیراعلیٰ ثناءاللہ زہری نے پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف کی قیادت میں ملک سیاسی و معاشی استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران کے دائمی حل کیلئے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ پاکستان اور بلوچستان کیلئے گیم چینجر سی پیک منصوبہ کا آغاز ہو چکا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ نوازشریف جب بھی ملک کو ترقی کی راہ پر لاتے ہیں‘ سازشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جے آئی ٹی کا فیصلہ بھی تسلیم کریں گے۔ اپوزیشن جلد بازی نہ کرے اقتدار کیلئے 2018ءتک کا انتظار کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن