قومی سیمینار  ”ووٹ کو عزت دو“

Apr 22, 2018

پاکستان مسلم لےگ (ن) کے صدر وسابق وزےر اعظم محمد نواز شرےف نے برطانےہ روانگی سے اےک روز قبل وفاقی دار الحکومت اسلام آباد مےں ”ووٹ کو عزت دو“ کے موضوع پر قومی سےمےنار منعقد کےا۔ ےہ سےمےنار اس موقع پر ،منعقد کےا گےا کہ جب کہ ملک میں مسلم لیگ ن کے بعض ارکان کا بازو مروڑ کر انھیں دوسری جماعتوں کی راہ دکھائی جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف کے ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے کو عوام میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ گذشتہ ہفتہ نیشنل لائبریری آڈیٹوریم میں میاں محمد نواز شریف، میر حاصل خان بزنجو اور محمود خان اچکزئی کی جانب سے قومی سیمینار کی میزبانی کی گئی سیمینار کے روحِ رواں سینیٹر مشاہد حسین سید تھے تاہم نظامت کے فرائض ڈاکٹر طارق فضل نے انجام دئےے۔ یہ سیمینار عملاً مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماءاسلام ف، نیشنل پارٹی اور پختونخواہ عوامی ملی پارٹی کا مشترکہ سیمینار بن گیا۔سیمینار میں وفاقی وزرائ، ارکان پارلیمنٹ اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مرےم اورنگ زےب ، سینیٹر مصدق ملک، دانیال عزیز، دانیال چوہدری، طلال چوہدری سمیت کئی رہنما سیمینار میں کھڑے رہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے چیئرمین اور سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق بھی سٹیج پر موجود تھے تا ہم انھوں نے تقریر نہیں کی۔ پانچوں جماعتوں کے درمیاں پائی جانے والی قربت سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ یہ سیمینار ان جماعتوں کے درمیان عام انتخابات میں ممکنہ اتحاد کی بنیاد بن سکتا ہے۔ پانچوں جماعتوں کا آئندہ انتخابات میں ”ووٹ کو عزت دو“ انتخابی نعرہ بن سکتا ہے۔ قومی سیمینار میں پانچوں جماعتوں کے سربراہان نے ووٹ کے تقدس اور جمہوریت کو لاحق خطرات کو موضوع گفتگو بنایا اور اس بات کا عہد کیا کہ جہاں ووٹ کے تقدس کو پامال کرنےوالی قوتوں کا مقابلہ کیا جائےگا اور جمہوریت پر شب خون مارنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے گا تاہم یہ بات بھی کہی کہ ووٹ دینے والے کو بھی عزت دی جائےگی اور اسکے بنیادی مسائل کے حل کےلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائینگے۔
مشاہد حسین سید کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ایک کامیاب سیمینار کا انعقاد کیا۔ سینیٹر مشاہد حسین سید سیمینار کے آغاز میں اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ”ووٹ کو عزت دو“ قوم کا بیانیہ بن گیا ہے، سپریم کورٹ نے اقامے کی بنیاد پر وزیراعظم کو ہٹایا پھر مسلم لیگ کی صدارت سے نکالا پھر جتنے فیصلے میاں نواز شریف نے کئے چیف جسٹس نے انھیں کالعدم قرار دے دیا ، سی پیک کا معاہدہ مشاہد حسین سید کو میاں نواز شریف کے قریب لانے کا باعث بناہے نے کہا ”شکر ہے نیوکلیئر ٹیسٹ اور سی پیک کا فیصلہ کا لعدم نہیں قرار دےدیا گےا ،انھوں نے اپنی تقریر میں پشتون تحفظ موومنٹ کا خاص طور پر ذکر کیا۔ اور کہا کہ وہ سب پاکستانی ہیں ان سے ڈائیلاگ ہونا چاہیے ۔ 14اپریل 1993ءکو غلام اسحاق خان کے ساتھ نواز شریف کی آخری میٹنگ ہوئی تو کوئی کہہ رہا تھا کہ استعفیٰ دے دیں اور کوئی ڈیل کی بات کر رہا تھا۔ میں نے مشورہ دیا کہ آپ اپنا کیس عوام کے سامنے رکھیں وہ آپ کا ساتھ دےگی، اس وقت یہ عوامی لیڈر کی تقریر تھی۔مشاہد حسین سید نے اپنے دورہ سندھ کے دوران ایاز لطیف پلیجو سے ملاقات کا حوالہ دیتے کہا کہ ایاز لطیف پلیجو نے کہا ہے کہ سندھ میں سب سے مقبول لیڈر نواز شریف ہے ایک تو نواز شریف دلیری سے سٹینڈ لے رہے ہیں اور دوسرا وہ مظلوم ہیں۔ گو عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین پشتون پس منظر رکھنے رہنما ہیں لیکن ان کا اردو زبان پر عبور ان کی شعر و شاعری سے شغف کا غماز ہے۔ انہوں نے احمد ندیم قاسمی اور پروین شاکر کے اشعار کے ذریعے اپنا مافی الضمیر بیان کیا اور شرکاءتقریب سے خوب داد لی انہوں نے کھل کر ووٹ کی عزت کی بحالی کےلئے میاں نواز شریف کی تحریک کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے احمد ندیم قاسمی کی شہرہ آفاق غزل کادرج ذیل شعر سناےا ....
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاﺅں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاﺅں گا
میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ نواز شریف کو جتنا دیوار کے ساتھ لگایا جائےگا ان کی مقبولیت اور عزت میں اسی قدر اضافہ ہو گا۔اب بات ووٹ کے تقدس بھی آگے بڑھ گئی ہے ، سکرپٹ بہت پہلے سے لکھا گیا تھا۔ بہرحال جو بھی ہوا وہ بہت افسوسناک ہے، جب ہم خود اختیار کسی کو دیتے ہیں تو پھر گلہ کس سے۔ ہم نواز شریف کے اتحادی نہیں لیکن اس معاملے پر انکے ساتھ ہیں۔ہمیں جتنی بھی مار پڑے ووٹ کے تقدس کےلئے ہم کھڑے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں عوامی نیشنل پارٹی کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا، پارٹی کی خاطر جان بھی دیدوں گا۔ پارلےمنٹ ہو ےا پارلےمنٹ سے باہر جلسہ گا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی کی آواز کی گونج دور دور سنائی دیتی ہے۔قومی سیمینار میں انہوں نے متنبہ کیا کہ 18ویں آئینی ترمیم کو نہ چھیڑا جائے، اگر ایسا کیا گیا تو سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
قومی سیمینار میں متحدہ مجلس عمل کے سربراہ اور جمعیت علماءاسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے بہ نفس نفیس شرکت کر کے تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کو اس بات کا پیغام دیا کہ وہ ووٹ کی عزت کیلئے میاں نواز شریف کیساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ووٹ کی طاقت سے ہم فتوحات حاصل کرتے ہیں اور عام آدمی کی پرچی نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ فوج سے کسی کا کوئی جھگڑا نہیں۔ فوج سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ بلوچ قوم پرست لیڈر اور نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل خان بزنجو اپنے والد غوث بخش بزنجو کی حق گوئی کی روایت کو برقرار رکھا اور نواز شریف کا بھرپور ساتھ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 2018ءکا الیکشن بھرپور انداز میں لڑیں گے،پار لیمانی قوتیں جیتیں گی اور پارلیمنٹ تاحیات نااہلی یک جنبش قلم سے ختم کر دینگے ۔قومی سیمینار میں جب مولانا فضل الرحمٰن نے میاں نواز شریف کو پنجابی زبان میں مخاطب کر کے کہا کہ ”اندر دی کوئی گل ہے تے سانوں وی دسو“۔ میں نے پانامہ کا بغور جائزہ لے کہ اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے مگر اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جسے بنیاد بنا کر منتخب وزیر اعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کے اداروں سے تصادم کی بات میں بھی کوئی صداقت نہیں۔اسکے جواب میں میاں نواز شریف نے جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو مخاطب کرتے کہا کہ”مولانا صاحب! اندر دیاں بہت ساریاں گلاں تواڈے نال علیحدگی وچ کرنیاں نے ، تے بعد وچ سب کج عوام نُو بھی دسنا اے“۔ میاں نواز شریف کی تقریر کے دوران بار بار لگائے جانےوالے نعروں سے انکی تقریر کا تسلسل ٹوٹتا رہا۔گو کہ میاں نواز شریف نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی جس میں انہوں نے آئین کے ساتھ ہونیوالے ”کھلواڑ “کا نقشہ کھینچا۔ اگرچہ انھیں مقررین کی طویل تقاریر کی وجہ سے کم وقت ملا۔ تا ہم انہوں نے تیز رفتاری سے اپنی تقریر مکمل کی۔سابق وزےر اعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ ”ووٹ کو عزت دو “کے نعرے کے ساتھ نکلنے کا مقصد ووٹ کے تقدس کو بحال کرانا ہے، ملک میں 70 سال کے دوران ووٹ کو عزت نہیں دی گئی اور آج تک بے توقیری کی جارہی ہے۔ ووٹ کے تقدس کو تماشا بنادیا گیا،عوام کی رائے کو بار بار کچلا گیاجب کہ جمہوری قوتوں کو غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے نشانہ بنایا گیا اور عوام کی رائے کی طاقت سے آنےوالی حکومتوں کو بری طرح کچلا گیا۔
وزیراعظم کی بے توقیری انتخابات اور جمہوریت کے حوالے سے 70سالوں کی کارروائیوں کو آئندہ نہیں دہرانے دینگے۔میاں نواز شریف کی کا خطاب دراصل ان سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کےخلاف ایک چارج شیٹ کی حیثیت رکھتا تھا جنھوں نے مختلف ادوار میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے میں ”مہرے“ کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ووٹ کی توہین کے تماشے سے پاکستان کی پوری تاریخ بھری پڑی ہے۔ 70سال سے یہ کھیل جاری ہے۔انہوں نے عزم کا اظہار کیا کہ انتخابات اور جمہوریت کے حوالے سے 70 سالوں کی کارروائیوں کو آئندہ نہیں دہرانے دیا جائےگا۔ میں نے جلسے جلوسوں کے دوران پاکستان کے نوجوانوں کی آنکھوں میں عجیب چمک دیکھی ہے ۔یہ نوجوان پاکستان کی کشتی کو پار لگانے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔

مزیدخبریں