مارشل لا کون لگائے گا‘ کس نے لگانے دینا ہے‘ ایسا ہوا تو سب جج چھوڑ جائیں گے : چیف جسٹس

Apr 22, 2018

لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے میرا قوم سے وعدہ ہے ہم کسی کا دباو¿ قبول نہیں کریں گے۔ عدلیہ اب مکمل آزاد ہے۔ سن کر حیرت ہوتی ہے جب کچھ اینکروں کو بھونچال آتا ہے کہ مارشل لاءآرہا ہے۔ کون لگائے گا کس نے لگانا ہے مارشل لائ، کیسا مارشل لاءاور کس نے لگانے دےنا ہے مارشل لائ۔ یہ ملک صرف جمہوری ہے، قائداعظم اور علامہ اقبال کا تصور جمہوریت تھا اور قائداعظم کے ملک میں صرف جمہوریت رہے گی۔ سپریم کورٹ کے 17 ججز مارشل لاءنہیں لگنے دیں گے۔گزشتہ روز یوم اقبالؒ پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا پاکستان ہمیں خیرات یا تحفے میں نہیں ملا۔ یہ ملک مستقل جدوجہد اور قربانیوں سے حاصل ہوا ہے۔ ایک جج کو ایک کیس نمٹانے کیلئے صرف 3 منٹ ملتے ہیں۔ عوام کو ان کے حقوق دلا کر جاﺅں گا۔ انہوں نے کہا پاکستان ایک مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے ‘ اقبال اور قائداعظم نے پاکستان بنایا۔ کاش قائد اعظم اور اقبال ملک کے شروع میں کچھ وقت ہمارے ساتھ گزار لیتے تو آج پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا۔ کئی خاندان ہجرت کر کے پاکستان آئے جن میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ پاکستان ہمیں خیرات یا تحفے میں نہیں ملا اس کے پیچھے طویل جدوجہد اور قربانی ہے۔ بدنصیب ہیں وہ قومیں جن کا اپنا ملک نہیں ہوتا ہم خوش نصیب ہیں پاکستان ہمیں ملا تحفے کی شکل میں۔ اس ملک کی اتنی بے قدری کی جا رہی ہے ذاتی خواہشات کی خاطر اس ملک کی بے قدری کی جا رہی ہے۔ ہم نے پاکستان کے تصور کو چکنا چور کر دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پہلے میں نے کہاایسا ہوا تومیں نہیں ہوں گا لیکن اب کہتا ہوں جس دن شب خون مارا گیا تو سپریم کورٹ کے 17 ججز نہیں ہوں گے۔ جبکہ کسی جوڈیشل مارشل لاءکا تصور ذہن میں ہے نہ آئین میں ہے۔ یہ کسی کے دل کی خواہش یا اختراع ہوسکتی ہے۔ کیوں لوگوں کو اضطراب میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماورائے آئین کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔انہوں نے کہا جس ووٹ کی قدر اور عزت کی بات کی جاتی ہے اس کی عزت یہ ہے لوگوں کی عزت کریں ان کو وہ حق دیں جو آئین نے ان کو فراہم کیا۔ میں نے بنیادی حقوق کے لئے کام کیا۔ کیا کوئی غلط کام کیا؟انہوں نے کہا زندگی صحت کے ساتھ جڑی ہوئی۔ جس ہسپتال میں گیا وہاں ایم آر آئی مشین نہیں، سی سی یو نہیں، کہیں الٹرا ساو¿نڈ نہیں، خیبرپی کے میں الٹرا ساو¿نڈ کرنے کے لئے لیڈی ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ کیا یہ رائٹ ٹو لائف ہے؟ 1300 دوائیاں جو ہسپتال میں مفت تقسیم کی جانی چاہئیں وہ نہیں مل رہیں۔انہوں نے کہا قوم کے تعاون سے آپ کے حقوق کے لئے لڑرہے ہیں۔ جس دن محسوس کیا اس حیثیت اور طاقت میں نہیں رہے۔ سمجھ آئی قوم سپورٹ نہیں کررہی تو کام نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا ہر عدالت میں جارہا ہوں۔ دیکھ رہے ہیں کیسی کارکردگی ہے، یہاں کوئی وضاحت دینے کے لیے نہیں آیا، کسی ذمہ داری سے اپنے آپ کو نہیں چھڑانا چاہتا۔ لیکن کیا انصاف کرنا عدلیہ کی ہی ذمہ داری ہے؟ جس ادارے میں بے انصافی ہو ان کی ڈیوٹی ہے وہاں انصاف کریں کیونکہ جتنے لوگوں کے حقوق مارے جائیں گے اتنے ہی لوگ عدالت میں آئیں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا قانون جدید تقاضوں کے تحت ہوتا ہے وہ قانون بدل دیں۔ مقننہ نے اس بارے میں کوئی قانون بنایا؟ سندھ میں پولیس لاء1861 کا ہے۔ میرے پاس کوئی وسائل نہیں کہ ججز کی تعداد بڑھاو¿ں یا بلڈنگ بناو¿ں۔ مجھے وسائل دیں۔انہوں نے کہا ’ہم پر الزام ہے عام کیسز کو ڈیل نہیں کررہے۔ ہم عام کیسز کو ڈیل کررہے ہیں۔ اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں کررہا ہے۔ کسی بھی ذاتی ایجنڈے پر لعنت بھیجتا ہوں۔ میں کوئی عوامی چیف جسٹس نہیں۔ میں اس ملک اور قوم کا چیف جسٹس ہوں۔انہوں نے کہا کسی صوبے کی بات نہیں کررہا، اپنی مرضی سے وائس چانسلر لگادیا جاتا ہے، کسی جگہ وی سی ڈھائی سال سے نہیں لگا کسی جگہ تین ماہ سے نہیں لگا۔، میرٹ کا کوئی تعلق نہیں، سنیارٹی کو مد نظر نہیں رکھا جاتا، یہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے عدالتوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے، کام ٹھیک ہوں تو عدالتوں پر بوجھ نہیں آئے گا، انہوں نے کہا ’میری نظر میں سب سے اہم چیز تعلیم ہے، تعلیم سے متعلق کسی چیز پر سمجھوتا نہیں کروں گا، قوم کی بقا کے لئے تعلیم بہت ضروری ہے، کیا ہم نے ایسے مواقع پیدا کیے جو بچہ ڈاکٹر بن کے ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے اسے بلا سفارش یا ایسا تعلیمی نظام میسر ہو جہاں جاکر وہ تعلیم حاصل کرسکے‘۔چیف جسٹس نے کہا ’ہمارے ملک میں یہ تعلیم کا عالم ہے، بلوچستان میں 6 ہزار پرائمری سکول پانی اور بیت الخلا کے بغیر چل رہے ہیں۔ بچیاں حاجت کے لیے فصلوں میں جاتی ہیں۔ پینے کے لیے پانی میسر نہیں۔ پنجاب میں اسی طرح کی صورتحال ہے۔ کے پی میں بتایا گیا وہاں بہت سکول ہیں جہاں پانی اور چار دیواری تعمیر نہیں ہوسکی۔ یہ کون دے گا؟ ہمارا ٹیکس کا پیسہ تعلیم پر خرچ نہیں ہوتا تو کہاں ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا پہلے اپنے اوپر وہ کیفیت طاری کریں جس میں قوم کی خدمت کا جذبہ ہو۔ بنیادی حقوق دینے کا جذبہ ہو ۔ امتیازی کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔بنیادی حقوق کی ذمہ داری کس کی ہے۔ کیا وہ پوری کی گئی۔ یہ میری ڈیوٹی ہے اور اسے پرفارم کرنے کو تیار ہوں۔ اس میں میری مدد کریں اگر فیل ہوجاو¿ں تو اپنے آپ کو ساری زندگی معاف نہیں کر پاو¿ں گا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا یہ میری نسل اور قوم کا حق ہے۔ اس حق کو استعمال کریں۔ کہیں ہمیں تعلیم چاہئے۔ جو والدین اپنے بچوں کو تعلیم دینے میں کوتاہی کررہے ہیں وہ مجرم ہیں‘۔چیف جسٹس نے کہا انسان کی زندگی بہت نایاب اور قیمتی ہے۔ ہم کیڑے مکوڑے نہیں۔ کیا یہ زندگی بے چارگی، مار کھانے، کسمپرسی اور ناجائز قیدو بند کی صعوبتیںبرداشت کرنے کے لئے ہے یا منہ بندی کرنے کے لیے ہے، زندگی بولنے کے لیے ہے لیکن جب کوئی بولنے کی کوشش کرتا ہے اسے بولنے نہیں دیا جاتا۔ ایک بستہ ایک سکول اور ایک تعلیم نہیں ہو گی تو ملک ترقی نہیں کرے گا۔ ایک تعلیم فراہم کرنا ریاست کا کام ہے۔ میں ایک سوچ پر آیا ہوں میرے بچوں کی تعلیم کی حق ان کو دیا جائے تاکہ یہ ملک کے فائدہ مند شہری بن سکیں۔ ہونہار بچوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے مواقع اور ذرائع میسر نہیں۔ اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔ میں اپنے فرائض انجام دینے کیلئے تیار ہوں۔ عورتیں سارا دن سیکرٹریز کے دفتروں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتی ہیں۔ یہ ہے قانون کا غلط استعمال جس کی وجہ سے لاقانونیت بڑھ رہی ہے۔تقریب میں جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال اور دیگر مقررین نے علامہ اقبال کے پیغام پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اقبال افکار کی روشنی میں ملکی مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔تقریب میںولید اقبال سمیت مختلف شعبہ زندگی کی شخصیات نے شرکت کی۔
چیف جسٹس
لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے پنجاب یونیورسٹی کی80کنال اراضی حکومت کو دینے کا سنڈیکیٹ کا فیصلہ معطل کر دیا اور حکومت سے اس معاملے پر وضاحت طلب کر لی۔ فاضل عدالت نے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر زکریا کو معطل کرتے ہوئے سینئر ترین پروفیسر کو وی سی لگانے کا حکم دےدیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد ڈاکٹر زکریا ذاکر نے اپنا استعفیٰ سپریم کورٹ میں پیش کردیا جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کس حیثیت میں یونیورسٹی کی 80کنال اراضی حکومت کو دی‘ آپ ہوتے کون ہیں یونیورسٹی کی اراضی حکومت کو دینے والے؟‘ لوگوں کو لگایا ہی اس لیے جاتا ہے حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کریں‘ ثابت ہوگیا کہ حکومت مطالبات منوانے کیلئے مستقل وی سی نہیں لگاتی‘ اڑھائی سال سے مستقل وائس چانسلر کیوں تعینات نہیں کیا گیا، آگاہ کیا جائے تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پنجاب یونیورسٹی کی زمین اورنج لائن ٹرین منصوبے کو دینے کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی، اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے گرڈ سٹیشن اور اورنج لائن منصوبے کیلئے حکومت کو 80 کنال اراضی دی ہے جس پر چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی کی اراضی حکومت کو گرڈ سٹیشن کیلئے دینے پر از خود نوٹس لے لیا۔ سپریم کورٹ نے وی سی کی تعیناتی کیلئے نئی سرچ کمیٹی کی بھی ہدایت کی۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے سابق پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کی ممبر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیش تعیناتی کا نوٹس لیتے ہوئے آئندہ سماعت پر توقیر شاہ کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ڈاکٹر توقیر شاہ کی بیرون ملک تقرری پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم مداخلت کر رہے ہیں، دیکھتے ہیں کہ اس تقرری کا طریقہ کار کتنا شفاف ہے، عدالتی نوٹس لینے پر صوبائی وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق پریشان ہوگئے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب نوٹس لینے پر آپ کا رنگ کیوں اڑ گیا، چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ جنیوا کہاں پر ہے، جس پر چیف سیکرٹری نے بتایا جنیوا سوئٹزرلینڈ میں ہے اور اچھا ملک ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ وہی ملک ہے نا جہاں لوگ اپنا پیسہ اکٹھا کرتے ہیں، تو بلائیں پھر ڈاکٹر توقیر شاہ کو انہوں نے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے بڑے مزے لوٹے ہیں، چیف جسٹس نے ڈاکٹر توقیر شاہ کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا اور عدالت نے ڈاکٹر توقیر شاہ کی بطور ممبر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن تعیناتی کا ریکارڈ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو آئندہ سماعت پر ریکارڈ جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے سفارشات پیش کرنے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دیدی جبکہ عدالت نے سرگودھا میں کیمیکل فیکٹری کے فضلے سے آبی آلودگی کے از خود نوٹس میں فضلے کے سیمپلز پی سی ایس آئی آر اور ای پی اے لیبارٹریز کو بھجوانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سرگودھا میں کیمیکل فیکٹری کے فضلے سے آبی آلودگی سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں کو ایک بھی لمحے کیلئے بیمار نہیں ہونے دیں گے۔ ہم رپورٹس پر انحصار نہیں کریں گے، اپنے طور پر بھی چیک کرائیں گے، عدالتی حکم پر ڈی جی ماحولیات عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ علاقے میں چھ بیڈز پر مشتمل ڈسپنسری قائم کر دی گئی ہے فیکٹری کے آلودہ پانی کے سیمپلز کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ 23 اپریل کو کمیٹی موقع سے سیمپل حاصل کرے گی عدالت نے بدھی نالہ میں موجود رکاوٹیں اور پانی کا بہاو¿ درست کرکے پندرہ دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دے دیا۔ عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو کرسٹلائنز فیکٹری کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ واضح رہے کہ فیکٹری مالک کی جانب سے بدھی نالہ پر سی سی پی لاہور کی جانب سے بند باندھنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالتی معاون نے عدالت سے استدعا کی کہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار سے متعلق سفارشات پیش کرنے کیلئے 2 ہفتوں کی مہلت دی جائے تاہم عدالت نے عدالتی معاون کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔ سپریم کورٹ نے سموگ سے متعلق ازخودنوٹس کیس میں سموگ کمیشن کو 9 جون تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ نسلوں کی صحت کا معاملہ ہے، اس پر تاخیر برداشت نہیں کی جائیگی۔ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سموگ کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزار، سموگ کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر پرویز حسن، محکمہ ماحولیات کے لاءافسران اور دیگر عہدیداران پیش ہوئے۔ وکیل شیراز ذکاءنے عدالت کو بتایاکہ سموگ کے پھیلاو¿ سے انسانی صحت اور ماحول متاثر ہورہا ہے۔ بنیادی حقوق کامعاملہ ہے۔ سموگ کی روک تھام کیلئے حکومت کو حکم جاری کیا جائے۔ عدالت نے قرار دیا کہ سموگ کے خلاف زیر التوا درخواستیں کمیشن رپورٹ کے بعد یکجا کرنے کا حکم دیں گے۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا خوشی ہے کہ مرغی کا گوشت اور فیڈ مضر صحت نہیں اور کھانے کے قابل ہے، عدالت نے مرغی کے گوشت اور خوراک کی رپورٹ مثبت آنے پر از خود نوٹس کیس نمٹا دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پولٹری فیڈ سے متعلق از خود نوٹس کیس میں از خود نوٹس کی سماعت کی۔ دوران سماعت عدالتی حکم پر عدالتی معاون ڈاکٹر فیصل مسعود عدالت پیش ہوئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ مرغی کا گوشت مضر صحت نہیں تاہم مرغی کے پنجوں میں جراثیم پائے جاتے ہیں۔ جس پر عدالت نے کہا کہ ہم آپ کے شکرگزار ہیں، آپ نے ہر دکان، سٹور پر خود جا کر رپورٹ تیار کی ہے۔ عدالتی معاون نے دوران سماعت عدالت کو بتایا کہ تحصیل لیول پر انسپکٹرز تعینات کر دیئے گئے ہیں جو مرغیوں کی فیڈ سے متعلق رپورٹس حاصل کرتے رہیں گے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اچھی بات ہے کہ ہمارے معاملات جلد حل ہو رہے ہیں۔ از خود نوٹسز پر حل نکلنا اچھی بات ہے اور خاص طور پر ریلوے والوں کو اعتراض نہ ہو کہ انکے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں ۔150 سال سے ریلوے کا محکمہ قائم ہے اور یہ کہہ رہے ہیں کہ سب اچھا ہے۔ سپریم کورٹ نے سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی میرٹ کے خلاف تعیناتی پر ازخود نوٹس نمٹا دیا۔ عدالت نے نشتر میڈیکل کالج کے وائس چانسلر کے استعفیٰ کے بعد سرچ کمیٹی کو میرٹ پر تعیناتی کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے از خود نوٹس کی سماعت کی۔ عدالت نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان میں وائس چانسلر کی تعیناتی کا معاملہ نمٹا دیا۔ عدالت نے سرچ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں بہترین امیدوار کو وائس چانسلر تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ عدالت کی قائم کردہ سرچ کمیٹی نے 3 بہترین امیدوار نامزد کئے ہیں، سرچ کمیٹی کے رکن نے کہا کہ عدالت کی سرچ کمیٹی نے جامع انٹرویوز کے بعد امیدوار نامزد کئے ہیں، انٹرویو کے بعد معیار پر پورا اترنے والے 3 امیدواروں کی سمری وزیر اعلی پنجاب کو بھجوا دی ہے۔ جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ بس یہاں ہمارا دائرہ اختیار ختم اور حکومت کا شروع ہو جاتا ہے، سرچ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں تعیناتیاں وزیر اعلیٰ اور گورنر کا اختیار ہے۔ امید ہے کہ حکومت بہترین امیدوار کو نشتر میڈیکل کالج کا وائس چانسلر تعینات کر ے گی۔ سپریم کورٹ نے عطائیوں کے خلاف زیر سماعت مقدمات طلب کرلئے۔ گزشتہ روز ہیلتھ کیئر کمشن کے چیف آپریٹنگ آفیسر ڈاکٹر اجمل نے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا عطائیوں کے خلاف 2330چھاپے مارے گئے۔ 11سو کلینک بند کر دئیے گئے جبکہ 7سو سے زائد عطائی کلینک بند کرکے بھاگ گئے۔ وہ دوبارہ کلینک کھولیں گے تو ان کے خلاف مقدمات درج کروائے جائیں گے۔ عطائیوں کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل سماعت کے دوران ہی کھڑے ہو گئے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا ابھی تو کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ عطائیوں کو اندر بھی کروایا جا سکتا ہے۔ انسانوں کی صحت سے کھیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ انہوں نے بتایا وہ مریضوں کو چیک نہیں کرتے‘ صرف ٹیسٹ کرتے ہیں۔ فاضل عدالت نے قرار دیا ان کی کوئی بات قانون کے مطابق ہو گی تو سنی جائے گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سپریم کورٹ رجسٹری میں سماعت کرتے ہوئے حضرت میاں میر ہسپتال کی زمین قبضہ مافیا سے چھڑانے اور ہسپتال میں بنیادی سہولیات مہیا کرنے کے لئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو احکامات جاری کر دئیے۔ سپریم کورٹ رجسٹری لاہور میں سماعت کے دوران سائلین عتیق الرحمان‘ حسن شبیر‘ فیصل قریشی عدالت میں پیش ہوئے سائیلین نے عدالت کو بتایا حضرت میاں میر ہسپتال کا آغاز 2008ءسے کیا گیا جس میں تمام بنیادی سہولیات کے عوض فنڈز بھی جاری کئے گئے تاہم کم و بیش دس سال گزرنے کے باوجود نہ تو ہسپتال کو مکمل طور پر بنیادی سہولیات سے مزین کیا گیا اور نہ ہی ایمرجنسی کو فعال کیا گیا ادویات بھی ہسپتال میں نہیں ملتیں، مریضوں کو سروسز ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے، جبکہ قبضہ مافیا نے ہسپتال کی جگہ بھی قبضے میں لے رکھی ہے جس کی وجہ سے ہسپتال تک رسائی بھی بہت مشکل ہو جاتی ہے مزید برآں سیاسی انتخابات میں ہسپتال کو فعال کیا گیا لیکن جلد ہی ڈسپنسر ی کی شکل میں منتقل کر دیا۔ سائلین نے استدعا کی کہ ہسپتال کی حالت زار پر نوٹس لیا جائے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ذاتی حیثیت میں حضرت میاں میر ہسپتال کے مسائل حل کرنے‘ قبضہ مافیا سے نجات اور ہسپتال 2ہفتوں میں اپنی اصل حالت میں لانے کے احکامات جاری کر دئیے۔
سپریم کورٹ

مزیدخبریں