ملک کے سیاسی نظام کا آئندہ کا منظر نامہ کیا ہو گا؟یہ ہے وہ بحث جس پر مختلف طبقہ فکر آج کل اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ ستر سال گزرنے کے باوجودہمارا سیاسی نظام مستحکم بنیادیں حاصل نہ کر سکا۔ میثاق جمہوریت کے بعد اور جنرل مشرف کی روانگی کے بعدسے ایسا لگتا تھا کہ اب ملک میں دو پارٹی نظام اپنی جڑیں مضبوط کر لے گا اور دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی طرح یہاں بھی سیاست دو بڑی جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے گرد گھومتی رہے گی یہ سیاسی جماعتیں ماضی کی غلطیاں نہیں دوہرائیں گی اور یوں پاکستانی عوام کو ایک مستحکم سیاسی نظام مل جائے گا۔لیکن بد قسمتی سے ان دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین آصف علی زرداری اور نواز شریف صاحب نے ماضی سے کچھ سیکھے بغیر ایسے اطوار اختیار کئے کہ اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھوں اور فیصلوں کی نظر ہو گئے۔ ان جماعتوں کی قیادت کی ناعاقبت اندیشی نے ان جماعتوں میں شامل تجربہ کار اور زیرک سیاستدانوں کے مستقبل کو بھی داﺅ پر لگا دیا۔ بلا شبہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کی سیاست میں سال ہا سال سے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کا کردار بڑا موثر اور فیصلہ کن رہا ہے۔
ہمارے سیاسی قائدین اپنے کردار اور گڈگورننس سے حالات کو بہتر کرنے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے؟ اس کا جواب صرف اور صرف ایک ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے سربراہوں کی نیتیں اور ان کی ترجیح نمبر ایک پاکستان اور اس کے عوام کبھی نہ تھے بلکہ ان کی اولین ترجیح صرف اور صرف اپنی ذاتی امپائر کو مستحکم کرنا تھا۔
آصف علی زرداری اور ان کی ٹیم نے پانچ سال کے دوران جو فیصلے کئے اور جس طرح قومی وسائل کو بے دریغ اپنی ذات اور خاندان کے لیے استعمال کیا وہ کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اور قومی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی اندرون سندھ کی پارٹی بن گئی وہ اپنے پانچ سالہ دور اقتدار اور پھر سندھ میں حکومت کے موجودہ پانچ سال کے دوران بھی خود کو Reviveنہ کر سکی۔ دوسری طرف ن لیگ جس کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ پیپلز پارٹی کی نسبت بہتر گورننس کر سکتی ہے ، ترقیاتی منصوبے بنا سکتی ہے اور ایک مستحکم سیاسی جماعت کے طور پر مستقبل میں بھی اپنا قومی کردار احسن طریقے سے ادا کر سکے گی لیکن شومئی قسمت کہ ایک طرف تو اسے عمران خان اور کچھ انٹیلی جنس ایجنسیاں مشکل ٹائم دے رہی تھیں دوسری طرف پانامہ کا چھاتہ بردار حملہ اس جماعت کے حقیقی قائد نواز شریف کے اوسان خطا کر گیا۔ اسے اللہ کی پکڑ کہیں یا نواز شریف کی سمجھ میں کمی،وہ پانامہ کیس سے خود کو نہ بچا سکے۔ اگر چہ ابتداءمیں ایسے وافرمواقع موجود تھے کہ وہ ایک قدم بیک فٹ پر چلے جاتے یا پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کا سہارا لے لیتے تو انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اب سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے ایک تجربہ کاراور قدرے بہتر سیاسی جماعت ن لیگ کا شیرازہ بکھرنے کو ہے۔ کھیل ایجنسیوں کا ہو یا حالات کا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ن لیگ کے قائد نواز شریف دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اب ن لیگ آئندہ انتخابات میں مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی بلکہ غالب امکان ہے کہ وہ صوبہ پنجاب میں بھی سادہ اکثریت شاید حاصل نہ کر سکے۔
اب رہا سوال تحریک انصاف اور دوسری سیاسی جماعتوں کا ۔تحریک انصاف کے سوا باقی کوئی سیاسی جماعت اس وقت سکہ رائج الوقت نہیں ہے دیگر کے سب پارٹیاں چھوٹے چھوٹے گروپوں کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ تحریک انصاف بظاہر نمایاں ہو کر سامنے آ رہی ہے لیکن بد قسمتی سے اس پارٹی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ملک میں اخلاقی اور سیاسی طور پر ایک مستحکم نظام دے سکے۔ ذرا ملاحظہ تو کیجئیے کہ نیا پاکستان بنانے کے دعویٰ دار اس پارٹی کے پاس کون کون لوگ ہیں جو نئے پاکستان کی تعمیر میں مستری کا کام کریں گے۔جناب ندیم افضل چن صاحب، فردوس عاشق اعوان، نذر محمد گوندل،شفقت محمود، شاہ محمد قریشی، راجہ ریاض،صصمام بخاری، فواد چوہدری، مصطفی کھر، امتیاز صفدر وڑائچ، افضل سوہنا، نور عالم خان، رانا آفتاب احمد، جناب جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان، عامر ڈوگر، غلام سرور خان، ظہیر الدین، طاہر صادق، ریاض فتیانہ، سعید ورک، فیاض چوہان، سمیع الحق، اعظم سواتی، اختر کانجو، لیاقت علی جتوئی، چوہدری محمد سرور، رمیش کمار صاحب اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین صاحب۔ نیا پاکستان بنانے کی دعویٰ دار اس پارٹی نے نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے جن مستریوں کا انتخاب کیا ہے ان میں پیپلز پارٹی کے 13،ق لیگ کے8،ایم ایم اے کے 3،مسلم لیگ ن کے 4 اور ایم کیو ایم کا ایک نمائندہ شامل ہے۔
درج بالا حقائق کی روشنی میں آئندہ انتخابات کے ذریعے وہی نمائندے دوبارہ اسمبلیوں میں ہوں گے جنہوں نے پہلے ہی عوام کو اندھیروں میں دھکیل رکھا ہے۔انتخابی اصلاحات کے بغیر ہونے والے ان انتخابات سے ہمیں کیا ملے گا؟کیا کوئی اس کا جواب دے سکتا ہے! ۔ حالات تو یہ بتا رہے ہیں کہ آئندہ آنے والی معلق پارلیمنٹ ان ہی کے ہاتھوں میں "تگنی کا ناچ ناچے گی "اور ایک مستحکم سیاسی نظام کی بجائے ہمیں صرف "کرسی کرسی" کا کھیل نظر آئے گا ۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف نے اپنے سیاسی تجربے سے جو حاصل کیا وہ سب خود ہی ملیا میٹ کر دیا۔