بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ عشرت حمید کشمیر یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ چونکہ کرونا (کورونا) وائرس کے عالمی سطح پر پھیلنے کے پیش نظر وادی کشمیر میں بھی گذشتہ تین ہفتوں سے سخت ترین لاک ڈاؤن نافذ ہے تو ایسے میں اپنے گھروں تک ہی محدود عشرت جیسی ہزاروں کشمیری طالبات کے لیے پاکستانی ڈرامے دیکھنا وقت گزاری کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔عشرت حمید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران وہ اپنے فارغ وقت کا بیشتر حصہ پاکستانی ڈرامے دیکھنے میں گزار رہی ہیں اور گذشتہ تین ہفتوں کے دوران 'عہد وفا، یقین کا سفر، من مائل اور یہ دل میرا' جیسے ڈرامے دیکھ چکی ہیں۔
عشرت نے بتایا: 'چونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے میں اپنے گھر تک ہی محدود ہوں تو اکثر وقت پاکستانی ڈرامے دیکھنے میں گزارتی ہوں۔ ہر روز پانچ تا سات قسطیں دیکھتی ہوں۔ میں پاکستانی ڈرامے بہت پسند کرتی ہوں اور اب تک ایک سو سے زیادہ ڈرامے دیکھ چکی ہوں۔'کشمیر میں پاکستانی ٹی وی چینلز پر سخت پابندی عائد ہے، یہی وجہ ہے کہ کشمیری طالبات یوٹیوب کی مدد سے پاکستانی ڈرامے دیکھتی ہیں اور ان کو اپنے موبائل فون میں ڈاؤن لوڈ کرتی ہیں تاکہ انٹرنیٹ بند ہونے کی صورت میں کام آئیں۔شرت نے 2014 میں بھارتی ٹی وی چینل 'زندگی' پر پاکستانی ڈرامے دیکھنا شروع کیے تھے لیکن اس چینل پر دو سال بعد یہ ڈرامے نشر کرنے کا سلسلہ بند ہوگیا، جس کے بعد اب یوٹیوب ہی واحد ذریعہ ہے۔پاکستانی ڈرامے دیکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے عشرت کا کہنا تھا: 'میں پاکستانی فلمیں بھی دیکھتی ہوں لیکن ان میں اتنا مزہ نہیں ہوتا جتنا بھارتی فلموں میں ہوتا ہے۔ ہاں لیکن پاکستانی ڈرامے اس لیے پسند کرتی ہوں کیونکہ ان میں طوالت نہیں ہوتی۔ بھارتی ڈرامے تو برس ہا برس تک چلتے رہتے ہیں۔'
انہوں نے مزید کہا: 'اگر مجھے کوئی پاکستانی ڈرامہ دیکھنا ہو تو دو چار دن کے اندر ہی اس ڈرامے کی سبھی اقساط دیکھ سکتی ہوں۔ اس کے برعکس بھارتی ڈرامے ختم ہونے کا نام ہی نہیں
لیتے، ایک بھارتی ڈرامہ ہے 'یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے،' جو گذشتہ دس برس سے چل رہا ہے۔ اب دیکھنے والا کتنا دیکھے گا؟'وسطی ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ نرجس خاتون اسلامیات میں پوسٹ گریجویشن کر رہی ہیں اور پاکستانی ڈرامے دیکھنے کی شوقین ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'میں ڈرامے یا فلمیں نہیں دیکھتی تھیں لیکن جب اپنی ہم جماعتوں سے سنا کہ وہ وقت گزاری کے لیے پاکستانی ڈرامے دیکھتی ہیں تو میں نے بھی دیکھنے شروع کردیے اور گذشتہ چند دنوں کے دوران یوٹیوب پر 'دو بول، زندگی گلزار ہے، غریب زادی اور من مائل' کی سبھی اقساط دیکھ لیں۔'ان کا مزید کہنا تھا: 'میں نے لاک ڈاؤن کے دوران جتنے بھی پاکستانی ڈرامے دیکھے ان کو انتہائی مہذب پایا، جو فحش اور عریاں مناظر سے پاک تھے۔ میرا ماننا ہے کہ ان ڈراموں کو گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔'اسی ضلع سے تعلق رکھنے والی 18 سالہ آفرین جبین نے حال ہی میں ڈگری کالج بڈگام کے انڈر گریجویٹ کورس میں داخلہ لیا ہے، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے کالج بند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری طالبات کی طرح آفرین کے لیے بھی پاکستانی ڈرامے دیکھنا وقت گزاری کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔تاہم آفرین دوسری لڑکیوں سے اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کیونکہ وہ یہ ڈرامے گھر میں لگے ٹی وی پر دیکھتی ہیں۔ ان کے مطابق ان کے بھائیوں نے ایک بڑا ڈش لگوایا ہے جس پر پاکستانی چینلز کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر ممالک کے چینلز بھی دکھائی دیتے ہیں اور آج کل ان کا بیشتر وقت پاکستانی ڈرامے دیکھنے میں ہی صرف ہوتا ہے۔
پاکستانی ڈراموں میں ایسا کیا ہے؟
شمالی ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر فوزیہ آفاق جنہوں نے کشمیری خواتین کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے، کے مطابق پاکستانی ڈراموں کی کہانیاں سماجی حقیقت کے موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں اور ان میں معاشرے میں پائی جانے والی ہر ایک چیز کو نہایت بہتر انداز میں دکھایا جاتا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'میں خود پاکستانی ڈرامے دیکھتی ہوں۔ یہ ڈرامے مختلف سماجی موضوعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ان کی کہانی کے ساتھ ساتھ زبان بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔اس کے برعکس بھارتی ڈراموں میں زیادہ فوکس انتقام لینے پر ہوتا ہے اور یہ انتہائی طوالت کے شکار ہوتے ہیں۔'ڈاکٹر فوزیہ کے مطابق: 'کشمیری طالبات پاکستانی ڈراموں کو ان کی کہانی کے علاوہ مشترکہ مذہب اور ثقافت کی وجہ سے بھی پسند کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں صرف سست رفتار والی ٹو جی انٹرنیٹ کی سہولت ہے لیکن اس کے باوجود اکثر طالبات یوٹیوب پر بفرنگ کی پرواہ کیے بغیر پاکستانی ڈرامے دیکھتی ہیں۔'انہوں نے بتایا کہ کشمیری لڑکیاں پاکستانی ڈراموں میں کرداروں کے کپڑوں کی نقل بھی کرتی ہیں۔ وہ ان کے ڈائیلاگ کو بھی پسند کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر 'زہر لگتے ہو تم' ایک ڈرامے کا ڈائیلاگ ہے اور یہاں کی لڑکیاں اکثر اس ڈائیلاگ کا استعمال کرتی ہیں۔ڈاکٹر فوزیہ کہتی ہیں: 'کشمیر میں ہمارے پاس تفریح کے کوئی ذرائع نہیں ہیں۔ ایک انسان کتنی دیر تک فیس بک اور وٹس ایپ استعمال کرے گا۔ تفریح کے لیے کشمیریوں کے پاس پاکستانی ڈرامے دیکھنے کے علاوہ کوئی دوسرا بڑا ذریعہ نہیں ہے۔'
(انڈپینڈنٹ اردو)